حضرت آیۃ العظمی موسوی اردبیلی کاعلمی سفر اور کاوشیں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

مقالہ ھذا میں آپ کی مختلف علمی سفر اور علمی کاوشوں کی طرف اشارہ کیا گیا جس میں آپ کے علمی سفر کو بیان کرنے کے بعد چار اہم علمی کاوشوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

حضرت آیۃ العظمی موسوی اردبیلی کاعلمی سفر اور کاوشیں

حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید عبد الکریم موسوی اردبیلی نے ۱۳ رجب۱۳۴۴ ھ ش کی صبح کو ایک غریب  اور  علم دوست گھرانے میں ولادت پائی ۔ آپ کے والد آقا سید عبدالرحیم اور والدہ سیدہ خدیجہ تھیں۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے چھ سال کی عمر سے مکتب میں داخل ہو کر تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ قرآن مجید تمام کرنے کے بعد رسالۂ عملیہ، گلستان، تاریخ عجم، درایۂ نادری، تاریخ وصاف، حساب، فارسی اور دوسری کتابیں بھی اساتذہ سے پڑھیں ۔۱۳۱۸ ھ ش میں عربی کی تعلیم شروع کی ۔۱۳۱۹ ھ ش میں حوزہ علمیہ کی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے اردبیل میں واقع مدرسۂ علمیۂ ملا ابراہیم میں داخل ہوئے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے۱۹۴۳ ء کے رمضان المبارک میں یہ طے کیا کہ قم ہجرت کرکے وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ اسی مہینہ کے آخر میں اردبیل سے روانہ ہو کر قم آگئے اور مدرسۂ فیضیہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ تین سال تک قم ہی میں قیام پذیر رہے۔ اس زمانہ میں آپ نے لمعتین، رسائل، مکاسب، کفایتین تمام کی اور درس خارج، تفسیر قرآن اور فلسفہ کے درس میں شرکت کے ساتھ ہی معالم، لمعتین اور قوانین کا درس بھی دیتے رہے۔
اس زمانہ میں آپ نے حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیدمحمد رضا گلپایگانی سے کچھ مکاسب اور کفایہ جلد اول، آیت اللہ العظمیٰ حاج سید احمد خوانساری سے مکاسب بیع، کفایہ جلد دوم اور شرح ہدایۂ میبدی اور آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ مرتضی حائری سے رسائل، آیت اللہ حاج مہدی مازندرانی سے منظومہ، آیت اللہ سید محمد حسین طباطبائی سے اسفار کا درس لیا۔ مزید برآں آپ نے کبھی بھی معارف اسلام کی ترویج سے غفلت نہیں کی ۔ آپ نے تبلیغ کے زمانہ میں ایران کے مختلف علاقوں میں مجالس کو خطاب کیا۔ اور اپنی مذہبی تقریروں کے ذریعہ معاشرہ میں نشاط اور معنویت کی روح پھونکتے رہے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے حوزۂ علمیہ قم کے تین فضلاء کے ساتھ نجف اشرف جانے کا پروگرام بنایا ۔ دو افراد نے ارادہ ترک کردیا تو آپ شیخ ابوالفضل حلال زادۂ اردبیلی کے ساتھ پہلی ذی الحجہ۱۳۶۳ ھ ق کو قم سے روانہ ہوئے۔ چونکہ اس زمانہ میں کوئی قانونی طور پر عراق کا سفرنہیں کر سکتا تھا وہاں جانا بہت مشکل تھا ۔ مجبورا خفیہ طور پر خرم شہر کے راستے سے عراق کے شہر بصرہ میں داخل ہوئے۔ بے پناہ مشکلات اور سختیاں اٹھانے کے بعد بصرہ، عباسیہ اور دیوانیہ سے ہوتے ہوئے خدا کے لطف و کرم سے اسی سال سات ذی الحجہ کو عصر کے وقت حوزۂ علمیہ نجف اشرف پہنچ گئے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے نجف اشرف میں قیام کے دوران اصول فقہ کے مباحث قطع و ظن، برائت و اشتغال اور کچھ الفاظ کی بحث اورعلم فقہ میں اعادۂ صلاۃ ، اوقات، قبلہ، لباس مصلی و مکان مصلی، خلل صلاۃ و شروط صلاۃ تا آخر مکاسب آیت اللہ العظمیٰ خوئی سے اور بحث طہارت کو آخر وضو تک مرحوم آیت اللہ العظمیٰ حکیم سے اور اجتہاد و تقلید کی بحث آیت اللہ میرزا عبدالہادی شیرازی سے اول کتاب بیع کو مرحوم آیت اللہ العظمیٰ میلانی سے ، بیع صبی کو مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد کاظم شیرازی سے اور کچھ عروہ آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد کاظم آل یاسین سے اور فلسفہ میں اول طبیعیات سے آخر منظومہ تک مرحوم صدر سے پڑھی۔ اسی زمانہ میں خوئی صاحب، میلانی صاحب اور محسن الحکیم کے دروس بھی قلم بند کئے۔
ہرچند نجف اشرف میں آپ کا قیام بہت کم رہا ۔ دو سال سے کچھ زیادہ لیکن یہی کوتاہ مدت آپ کے لئے علمی لحاظ سے بہت قیمتی تھی۔ اس زمانہ کے حوزات میں فقہ، اصول، فلسفہ کے سلسلہ میں باریک بینی اور موشگافیاں بہت تھیں۔
اس زمانہ میں عراق کے سیاسی حالات بتدریج بگڑ رہے تھے۔ دوسری جانب آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی کو ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ آپ کے والد بیمار ہیں آپ پریشان ہو گئے ۔ عراق کے بدلتے ہوئے حالات اور والد کی بیماری کے پیش نظر آپ نے بادل ناخواستہ عراق چھوڑ کر ایران کا رخ کیا۔
جب قم پہنچے تو والد کی شفایابی اور حوزہ کے دروس کی کمی و کیفی حالت سے آگاہ ہوئے۔ چند ماہ قم ہی میں قیام کیا ۔ اس زمانہ میں آیت اللہ العظمیٰ بروجردی مرحوم کے فقہ کے درس خارج میں اور آیت اللہ داماد کے اصول کے درس خارج میں شریک ہوتے رہے نیز آیت اللہ طباطبائی کے منظومہ کے درس میں شرکت کی۔ ماہ رجب میں اردبیل گئے۔ والد ماجد سے ملاقات کی، والد کی تمنا تھی کہ وہ اپنی باقی عمر نجف اشرف یا قم میں بسر کریں لیکن اہل و عیال کے ساتھ نجف جانا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا قم آگئے۔ ایک چھوٹا سا گھر لیا اور قم ہی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انکے والد قم کی سخت گذر بسر کی بنا پر زیادہ دن قم میں نہیں رہ سکے۔ ۱۹۵۱ع میں ان کا انتقال کیا۔
قم میں آپ کی اہم ترین مشغولیت یہ تھی کہ آپ تعلیم و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور اس زمانہ کے بڑے اساتذہ یعنی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی اور آیت اللہ العظمیٰ سید محمد داماد طباطبائی کے درس میں شریک ہونے کے علاوہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی کے درس اخلاق اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی کے فقہ کے درس خصوصی میں شریک ہوتے تھے۔ اسی طرح آیت اللہ حاج شیخ مرتضی حائری اور آیت اللہ العظمیٰ حاج سید احمد خوانساری کے درس میں شرکت کرتے تھے۔
قم میں قیام کے دوران آپ نے اپنی عمر کے آخری لمحہ تک چار اساسی کام انجام دیئے : ۱۔ درس و تدریس : آپ نے اپنی ابتداء طالب علمی سے اس شیوہ کو اپنا کر رکھا تھا  اور عمر کے آخری لمحہ تک اس کو اپنا طرہ امتیاز بنا کر رکھا۔ ۲۔ قرآنی خدمت: قم میں قیام کے دوران آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے جو کام انجام دئے ہیں ان میں قرآن کی خدمت بھی ہے۔ہفتہ میں دو دن فضلاء کو تفسیر قرآن کا درس دیتے تھے۔ اور تمام شاگردوں سے قرآن و تفسیر کی سے متمسک رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ ۳۔ مفید یونیورسٹی کا قیام:جس زمانہ میں حضرت آیت اللہ موسوی اردبیلی قم میں زیر تعلیم تھے اس زمانہ میں ہر ایک درد آشنا طالب علم کے مانند حوزہ کے نواقص کے بارے میں سوچتے تھے ان کی آرزو تھی کہ حوزہ کے نواقص برطرف ہوجائیں۔ ان مشکلات کو حل کرنے اور حوزات کے نقص کو برطرف کرنے کیلئے آپ نے اس وقت مفید یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر و تاسیس کا مقصد یہ ہے کہ اس میں علوم انسانی کی تعلیم دی جائے اور دیگر مکاتب کے ساتھ اسلام کے نظریات کی بھی تحقیق کی جائے۔ ۴۔ تصنیفات و تالیفات: موصوف  کی اتنی مصروفیات و مشغولیات کے باوجود آپ نے اپنے علمی خزانوں کو کتاب کی شکل دے کرانہیں  ابدی جامہ پہناتے ہوئے آنے والی نسل میں تشنگان علم کے سیراب ہونے کا سامان فراہم کردیا، آپ کی تالیفات و تصنیفات درجہ ذیل ہیں:فقہ و اصول،  فقہ القضاء، فقہ الحدود والتعزیرات، فقہ الدیات، فقہ القصاص، فقہ الشرکۃ والتامین، فقہ المضاربہ، حاشیہ برخیارات مکاسب، اصول فقہ کامل دورہ، مقالات در تفسیر قرآن، اخلاق میں دئے گئے دروس، چار جلد اقتصاد، ہمپاے انقلاب(خطبات نماز جمعۂ تہران) ، اقتصاد اسلامی کا ایک دورہ وغیرہ۔
مگر افسوس صد افسوس ہم نے ایسے شخص کو کھودیا جس کے دل میں علم کا موجیں مار تا ہوا سمندر تھا ، ۲۲صفر بروز سہ شنبہ ۱۴۳۸ہجری کا دن ایسا تھا کہ جس دن تمام تشنگان علم کی آنکھوں سے سیلاب کی طرح آنسو بہہ رہےتھے، آپ اپنی علمی کاوشوں کے ذریعہ تو ابدی ہوگئے مگر ہم آپ کے ظاہری وجود نازنین سے محروم ہوگئے ۔

بے شک عالم کی موت عالم کی موت ہے[1]، آپ  ظاہرا ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن آپ اپنی علمی کاوشوں کے ذریعہ آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں ، کل بھی زندہ رہیں گے اورجب تک یہ جہان ہے آپ کا نام ہے.[2]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1] شرح اصول کافی(صدر)، ج۲، ۱۴۷۔
[2] رسمی سائٹ حضرت آیۃ اللہ العظمی موسوی اردبیلی۔http://www.ardebili.com/fa/Biography/View/

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
13 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 62