قرآن کی روشنی میں قصر نماز کا حکم

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: جس طرح اپنے وطن میں مکمل نماز پڑھنے کا حکم ہے اسی طرح سفر کی حالت میں قصر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔

قرآن کی روشنی میں قصر نماز کا حکم

     خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
 " وَ إِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكافِرينَ كانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبيناً [نساء، 10۱]" اور جب تم زمین میں سفر کرو  تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کرو اور اگر تمھیں کفار کے حملہ کر دینے کا خوف ہے، کہ کفار تمہارے لئے کھلے ہوئے دشمن ہیں-"
اس مسئلہ میں اختلاف کا اصلی سبب، لفظ " جناح" کے معنی کو سمجھنے میں ہے، جو اس آیت شریفہ میں ذکر کیا گیا ہے، اسی وجہ  سے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس کی وضاحت کریں:
لغت میں جناح کے معنی گناہ اور حق سے گمراہ ہونے کے ہیں۔[1]
لا جناح { یعنی کوئی گناہ نہیں ہے} کے معنی کے پیش نظر، اہل سنت کی ایک جماعت سفر میں نماز کے قصر کے جائز ہونے کی قائل ہوئی ہے۔[2]
کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے: " اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کرو-"
اور اس میں قصر کے معین ہونے کی نسبت تخییر کی دلالت قوی تر ہے، کیونکہ"جناح" کی نفی، واجب، مستحب اور مباح کی نسبت مرجوحہ سے موافق ہے۔ [3]
لیکن اس کی مشابہ آیت کے پیش نظر جس میں لفظ " جناح" سے استفادہ کیا گیا ہے اور وہ لفظ وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر بیان کے مقام پر قصر نماز کی تشریع ہوئی ہے، نہ کہ حکم کی نوعیت بیان کی گئی ہے، اس لحاظ سے مذکورہ آیت شریفہ میں نماز کو قصر و مکمل پڑھنے کے بارے میں اختیار کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
اور اگر اس کو ترک کرنا جائز ہوتا، تو کہنا چاہئیے تھا کہ:" کوئی گناہ{ حرج} نہیں ہے اگر وہ قصر نہ پڑھے۔
مثال کے طور پر آیت شریفہ:" "إِنَّ الصَّفا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَإِنَّ اللَّهَ شاكِرٌ عَليمٌ  [بقره، 158]؛{ بیشک صفا و مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے  ہیں، لہذا  جو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کا چکر لگائے اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدر دان اور اس سے خوب واقف ہے} ۔
     یہاں پر لفظ"لا جناح" بظاہر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانے کے اختیاری ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے، لیکن مسلمانوں میں کوئی اس عمل کے اختیاری ہونے کا قائل نہیں ہے، کیونکہ یہ آیت شریفہ، مسئلہ کے شرعی نہ ہونے کے شبہے کو دور کرنے کے لئے اصل حکم کی تشریع کو بیان کرنا چاہتی ہے، لیکن حکم کی نوعیت کو دوسری دلیلوں سے سمجھا جاتا ہے۔
اس قسم کی مثالیں، جو بغیر  واسطہ واجب ہونا بیان نہیں کرتی ہیں، قرآن مجید میں تشریع کے مقام پر بکثرت پائی جاتی ہیں۔
جیسا کہ جہاد کی تشریع کے سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:" ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ"[سوره بقره، آيه 54]؛" آپ کا یہ عمل آپ کے لئے خیر ہے-"
روزہ کی تشریع کے سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے:" وَ أَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ"[ سوره بقره، آیه 184]؛ " رو زہ رکھنا آپ کے لئے بہتر ہے-"
اور اسی طرح سفر میں نماز قصر پڑہنے کے بارے میں فرمایا ہے: " فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ"؛ ]سوره بقره، آیه 18]  پس جب تم سفر میں نماز قصر پڑہو گے تو کوئی حرج { گناہ}  نہیں ہے-"[4]
فخرالدین طریحی اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" چونکہ مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ عمل گناہ شمار ہوتا ہے، اس لئے آیت فرماتی ہے کہ اس میں کوئی گناہ {حرج} نہیں ہے-"[5]
ہم بھی یہی چیز بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اس آیت میں اصل تشریع بیان ہو رہی ہے، نہ کہ حکم کی نوعیت کو بیان کرنا چاہتی ہے۔
زمخشری کہتے ہیں :" چونکہ لوگوں کو نماز پوری پڑہنے کے ساتھ الفت پیدا ہوگئی تھی اور شائد وہ یہ تصور کرتے تھے کہ سفر میں نماز قصر پڑھنا ایک قسم کا نقصان ہے، اس لئے فرمایا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے تاکہ نماز کو قصر پڑہنے میں انہیں آرام و سکون ملے۔ [6]
نتیجہ
اس پوری بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو قرآن میں حکم ہے وہ نماز کو قصر پڑھنے کا ہے یعنی کہا گیا ہے کہ اگر آدھی نماز پڑھی جائے تو کوئی حرج نہیں تو اس کلمے سے یہ سمجھ بیٹھے کہ اگر کم پڑھی تو نماز کے ثواب میں کمی آجائے گی اور مطلب کی حقیقت سے غافل رہے یا پھر آج تک ان کا یہی نظریہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات :
[1] طریحی، فخر الدين، مجمع البحرين، حسينى، سيد احمد، ج ‏2، ص 346، كتابفروشى مرتضوى، تهران، سال 13755 هـ ش، طبع سوم‏.
[2] استرآبادي، محمد بن علی، آيات الأحكام، ج ‏1، ص 266، مكتبة المعراجي، تهران، طبع اول‏.
[3] محدث نوری، مستدرك‏الوسائل، ج 9، ص 437، مؤسسه آل البیت، قم، 1408 هـ ق، البتہ یہ مطلب صفا و  مروہ کی سعی کے بارے میں حدیث میں ذکر کیا گیا ہے.
[4] طباطبایی، محمدحسین، ترجمه الميزان، ج ‏1، ص 580، دفتر انتشارات اسلامی جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، قم، سال 13744 هـ ش، طبع پنجم.
[5] محدث نوری، مستدرك‏الوسائل، ج 9، ص 437.
[6] زمخشري جار الله، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ، ج 1، ص 454، ناشر دار الكتاب العربي، طبع بيروت، سال 14077 ہ، طبع سوم‏؛ بيضاوى، ناصر الدين أبو الخير عبدالله بن عمر بن محمد، انوار التنزيل و أسرار التأويل، ج 1، ص 492، ناشر دار احياء التراث العربى، بيروت، 1418 ھ ، طبع: اول‏؛ حلى، سيد على بن طاووس‏، تفسیر ابی السعود، سعد السعود للنفوس منضود، ج 2، ص 147، محمد كاظم الكتبي‏، قم‏‏.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 58