امام مھدی سے متعلق مضامین
قُلُوبُنٰا اٴَوعِیَةٌ لِمَشِیَّةِ اللهُ، فاِذَا شَاءَ اللهُ شِئنَا، وَاللهُ یَقُولُ: ( وَ مٰا تْشٰاوٴُونَ إِلّا اٴَنْ یَشٰاءَ اللهُ )؛”ہمارے دل مشیت الٰہی کے لئے ظرف ہیں، اگر خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ کرے اور اس کو چاہے تو ہم بھی اسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں اور اسی کو چاہتے ہیں۔ کیونکہ خداوندعالم کا ارشاد ہے: ”تم نہیں چاہتے مگر وھی چیز جس کا خدا ارادہ کرے“۔[کمال الدین، ج 2، ص 511، ح 42]امام زمانہ علیہ السلام اس کلام میں ”مقصِّرہ“ و ”مفوِّضہ“ کی تردیدکرتے ہوئے کامل بن ابراھیم سے خطاب فرماتے ہیں:”وہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں، بلکہ ہمارے دل رضائے الٰہی کے ظرف ہیں، جو وہ چاہتا ہے ہم بھی وھی چاہتے ہیں، اور ہم رضائے الٰہی کے مقابل مستقل طور پر کوئی ارادہ نہیں کرتے“۔
اٴَنَّ الْاٴَرْضَ لاٰ تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ ،إِمّٰا ظٰاهِراً وَ إِمّٰا مَغْمُوراً؛”بے شک زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی، چاہے وہ حجت ظاہر ہو یا پردہ غیب میں“۔[الخرائج والجرائح،ج 3، ص 1110، ح26۔]یہ حدیث امام مھدی علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ہے جو آپ نے عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد کے لئے تحریر فرمائی ہے۔امام علیہ السلام بہت زیادہ تاکید کے بعد ایک مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: روئے زمین پر ہمیشہ حجت خدا کا ہونا ضروری ہے اور کبھی بھی کسی ایسے لمحہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو امام معصوم کے وجود سے خالی ہو۔
عِلْمُنٰا عَلیٰ ثَلاٰثَهِ اٴَوْجُهٍ: مٰاضٍ وَغٰابِرٍ وَحٰادِثٍ، اٴَمَّا الْمٰاضِي فَتَفْسیرٌ، وَ اٴَمَّا الْغٰابِرُ فَموْ قُوفٌ، وَ اٴَمَّا الْحٰادِثُفَقَذْفٌ في الْقُلُوبِ، وَ نَقْرُ في الْاٴَسْمٰاعِ، وَهُوَ اٴَفْضَلُ عِلْمِنٰا، وَ لاٰ نَبيَّ بَعْدَ نَبِیِّنٰا؛ہم (اہل بیت) کے علم کی تین قسمیں ہوتی ہیں: گزشتہ کا علم، آئندہ کا علم اور حادث کا علم۔ گزشتہ کا علم تفسیر ہوتا ہے، آئندہ کا علم موقوف ہوتا ہے اور حادث کا علم دلوں میں بہر ا جاتا اور کانوں میں زمزمہ ہوتا ہے۔ علم کا یہ حصہ ہمارا بہترین علم ہے اور ہمارے پیغمبر (ص) کے بعد کوئی دوسرا رسول نہیں آئے گا“۔[مدینة المعاجز، ج 8، ص 105، ح 2720۔]یہ الفاظ امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ہیں جس میں علی بن محمد سمری (علیہ الرحمہ) نے علم امام کے متعلق سوال کیا تھا۔
اٴَوَ مٰا رَاٴَیْتُمْ كَیْفَ جَعَلَ اللهُ لَكُمْ مَعٰاقِلَ تَاٴوُونَ إِلَیْهٰا، وَ اٴَعْلاٰماً تَهْتَدُونَ بِهٰا مِنْ لَدُنْ آدَمَ (علیه السلام)؛”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خداوندعالم نے کس طرح تمھارے لئے پناہ گاھیں قرار دی ہیں تاکہ ان میں پناہ حاصل کرو، اور ایسی نشانیاں قرار دی ہیں جن کے ذریعہ ہدایت حاصل کرو، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک۔[بحار الانوار، ج 53، ص 179، ح 9۔]یہ تحریر اس توقیع کا ایک حصہ ہے جس کو ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعوں کے درمیان ہونے والے اختلاف کی وجہ سے امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے، ابن ابی غانم کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیاہے، اور سلسلہ امامت آپ ھی پر ختم ہوگیا ہے۔ شیعوں کی ایک جماعت نے حضرت امام مھدی علیہ السلام کو خط لکھا جس میں واقعہ کی تفصیل لکھی، جس کے جواب میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ایک خط آیا، مذکورہ حدیث اسی خط کا ایک حصہ ہے۔
“الْحَقُ مَعَنٰا فَلَنْ یُوحِشَنٰا مَنْ قَعَدَ عَنّٰا، وَ نَحْنُ صَنٰائِعُ رَبِّنٰا، وَالْخَلْقُ بَعْدُ صَنٰائِعُنٰا””حق، ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے ساتھ ہے، کچھ لوگوں کا ہم سے جدا ہونا ہمارے لئے وحشت کا سبب نہیں ہے، کیونکہ ہم پروردگار کے تربیت یافتہ ہیں، اور دوسری تمام مخلوق ہماری تربیت یافتہ ہیں“۔[الغیبة، شیخ طوسی، ص285، ح245؛ احتجاج، ج2، ص278؛ بحار الانوار، ج53، ص178، ح9۔]اس حدیث مبارک کو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے معتبر سند کے ساتھ ابوعمرو عمری سے امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے نقل کیا ہے۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل للہ تعالی فرجہ الشریف) کے قیام کے بارے میں اکثر معصومین(علیہم السلام) نے کچھ نہ کچھ اشارے دئے ہیں۔
خلاصہ: جب تک انسان کے اندر انتظار کی حالت پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک اسکا کوئی بھی عمل بارگاہ خداوندی میں قبول نہیں ہوگا۔
خلاصہ: جب تک خدا اپنی معرفت عطا نہ کرے تب تک ہم اس کے رسول کی شناخت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک رسول کو نہیں پہچانیں گے، اس وقت تک رسول کے جانشین کی معرفت کو حاصل کرنا اور اس پر ایمان رکھنا آسان نہیں ہے۔
خلاصہ: امام مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا قیام اور اور امام حسین(علیہ السلام) کے قیام کا مقصد ایک ہی ہے۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے اصحاب سب عاشورائی ہیں۔