بصیرت
بصیرت یعنی دینی مسائل اور حقائق کی شناخت و معرفت ، اعتقاد و ایمان کا نام ہے شھید مطھری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : امام حسین علیہ السلام عاشور کے دن کربلا کی مٹی میں وہ دیکھ رہے تھے جسے ہم اور اپ آئینہ میں بھی نہیں دیکھ سکتے ۔
بعض محققین کا کہنا ہے کہ بصیرت ، شناخت ، معرفت اور اعتقاد ، دینی مسائل اور حقائق پر انسان کے ایمان کا نتیجہ ہے (۱) شھید مطھری علیہ الرحمۃ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : «واضح طور سے دیکھنے کے کیا معنی ہیں ؟
إنَّ التَّفكُّرَ، حَياةُ قَلبِ البَصيرِ كما يَمشي المُستَنيرُ في الظُّلُماتِ بالنورِ ، يُحسِنُ التَّخلُّصَ و يُقِلُّ التَّربُّصَ ۔ (۱)
خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خلافت کے مسئلہ میں لوگوں کو سمجھایا، لیکن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور اللہ کے برحق خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کی۔
خلاصہ: بصیرت کی بناء پر نیک اعمال قبول ہوتے ہیں اور نیک اعمال کی وجہ سے بصیرت حاصل ہوتی ہے۔
خلاصہ: بغیر بصیرت کے انسان اگر عمل کریگا تو اسکے عمل میں اتنا وزن نہیں پایاجائیگا اور بغیر عمل کے بصیرت بھی حاصل نہیں ہوسکتی، اسی لئے ہم کو چاہئے کہ ہم ہر وقت بصیرت کو حاصل کرنے اور عمل کو بجالانے کی کوشش کرتے رہیں۔
خلاصہ: بصیرت کے تین اہم عنصر ہیں جن میں سے ایک عنصر، خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے اور دوسرے دو عنصر کسبی ہوتے ہیں جو دینی معلومات میں اضافہ اور ایمان اور تقوی کا اختیار کرنا ہے۔
خلاصہ: بصیرت رکھنے والا شخص ظاہری اور باطنی دوںوں دشمنوں کے دھوکہ میں نہیں آتا۔
رسول اكرم صلّى الله عليه و آله و سلّم:
«مَن قَرَأَ القُرآنَ ابتِغاءَ وَجهِ اللّه و تَفَقُّهاً فِى الدّينِ كانَ لَهُ مِنَ الثَّوابِ مِثلَ جَميعِ ما اُعطِىَ المَلائِكَةُ و الأنبياءُ وَ المُرسَلونَ»
خلاصہ:جناب خدیجہ(علیہا سلام) کی بصیرت اس زمانے میں اس عروج پر تھی۔