خلاصہ: بصیرت رکھنے والا شخص ظاہری اور باطنی دوںوں دشمنوں کے دھوکہ میں نہیں آتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بصیرت ایک مثلث ہے جس کا ایک حصہ خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے لیکن دوسرے دو حصے کسبی ہیں اس میں سے ایک دینی معلومات میں اضافہ اور دوسرا اپنے آپ کو ایمان و تقوی سے سنوارنا ہے، اگر یہ تینوں چیزیں کسی کے اندر پائی جاتی ہیں تو انسان کے اندر بصیرت خود با خود پیدا ہوجاتی ہے۔
حضرت علی(علیہ السلام) بصیرت کے بارے میں فرماتے ہیں: «َإِنَ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي وَ لَا لُبِّسَ عَلَي، یقینا میں نے اپنے راستہ کو بصیرت کے ساتھ انتخاب کیا ہے، نہ میں نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے نہ کسی اور نے مجھے دھوکہ دیا ہے»، [نهج البلاغة،، ص۵۴]
امام علی(علیہ السلام) کی اس فرمائش کے بعد ہمارے لئے بصیرت کا معنی واضح اور روشن ہوگیا ہے کہ جو بصیرت رکھتا ہے نہ اس کا نفس اس کو دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور اسے دھوکہ دے سکتا ہے۔
*محمد بن حسين رضى، نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص۵۴، هجرت - قم، ۱۴۱۴ ق.
Add new comment