خلاصہ: بغیر بصیرت کے انسان اگر عمل کریگا تو اسکے عمل میں اتنا وزن نہیں پایاجائیگا اور بغیر عمل کے بصیرت بھی حاصل نہیں ہوسکتی، اسی لئے ہم کو چاہئے کہ ہم ہر وقت بصیرت کو حاصل کرنے اور عمل کو بجالانے کی کوشش کرتے رہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بصیرت کا ثمرہ(نتیجہ) عمل صالح ہے اگر دل و جان کی گہرائیوں میں بصیرت ہے تو وہ لامحالہ عمل صالح پر آمادہ کرے گی، بصیرت کبھی عمل سے جدا نہیں ہوسکتی ہے۔ روایات اس چیز کو صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ انسان کے عمل میں نقص اورکوتاہی، دراصل اس کی بصیرت میں نقص اورکوتاہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرمارہے ہیں: «الْمُوقِنُ يَعْمَلُ لِلَّهِ كَأَنَّهُ يَرَاهُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ يَرَى اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ يَرَاه، درجۂ یقین پر فائز انسان، ﷲ کیلئے اس طرح عمل انجام دیتا ہے جیسے وہ ﷲ کو دیکھ رہا ہو، اگر وہ اﷲ کو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم از کم ﷲ تو اس کو دیکھ رہا ہے»۔[بحار الأنوار، ج۷۴، ص۲۱]۔
ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمل صالح کی بنیاد بصیرت ہے، اسی کے بالمقابل بصیرت کا سرچشمہ عمل صالح ہے۔ دوطرفہ متبادل رابطوں کے ایسے نمونے آپ کو اسلامی علوم میں اکثر مقامات پر نظر آئیں گے۔ قرآن کریم، عمل صالح اور بصیرت کے اس متبادل اور دوطرفہ رابطہ کا شدت سے قائل ہے اور بیان کرتا ہے کہ بصیرت سے عمل اور عمل صالح سے بصیرت حاصل ہوتی ہے اور عمل صالح کے ذریعہ ہی انسان خداوند عالم کی جانب سے بصیرت کا حقدار قرار پاتا ہے: «والذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سُبُلَنا وان ﷲ لمع المحسنین[سورۂ عنکبوت، آیت:۶۹] اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا ﷲحسن عمل والوں کے ساتھ ہے»۔
*محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي - بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۲ ق.
Add new comment