خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خلافت کے مسئلہ میں لوگوں کو سمجھایا، لیکن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور اللہ کے برحق خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کی۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی رحلت کے بعد لوگوں کی جو گمراہی شروع ہوگئی تھی جب حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے دیکھا کہ بعض افراد اپنے آپ کو پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا جانشین متعارف کروانا چاہتے ہیں تو آپؑ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے دلائل کی بنیاد پر ان کو گمراہی سے روکتے رہے، آپؑ تقریباً چھ مہینے خلافت کے مسئلہ کو لوگوں کے لئے واضح کرتے رہے اور معاشرے کی گمراہی کی اصلاح کے لئے جدوجہد جاری رکھی۔
آپؑ راتوں کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور حسنین (علیہماالسلام) کو اصحاب کے دروازوں پر لے جاتے تھے تاکہ پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے فرامین کی یاددہانی کروائیں، لیکن ان میں سے بعض کہتے تھے: ہمیں ایسی بات یاد نہیں آرہی اور بہت سارے لوگ کہتے تھے: اگر آپؑ نے اس سے پہلے یاددہانی کرا دی ہوتی تو ہم کسی اور سے بیعت نہ کرتے، لیکن اب ہم نے بیعت کرلی ہے۔ [در پرتو آذرخش، ص ۲۷]
واضح ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نافرمانی کی اور حق کو چھوڑ کر گمراہ ہوگئے کیونکہ پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جب اللہ کی طرف سے اپنا جانشین مقرر کردیا تو لوگ خلیفہ مقرر نہیں کرسکتے۔
* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص ۲۷، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔
Add new comment