امام مھدی المنتظر (عج)
تاریخ کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ جب تک لوگ نہ چاھیں اور سعی و کوشش نہ کریں تو حق اپنی جگہ قائم نہیں ہوپاتا، اور حکومت اس کے اہل کے ہاتھ وں میں نہیں آتی۔ حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی تاریخ اس بات پر بہترین دلیل ہے۔
اٴَمّٰا وَجْهُ الْاِنْتِفٰاعِ بِي فِي غَیْبَتِي فَكَالْاِنْتِفٰاعِ بِالشَّمْسِ إِذٰا غَیَّبَتْهٰا عَنِ الْاٴَبْصٰارِ السَّحٰابُ؛”لیکن میری غیبت میں مجھ سے فیض حاصل کرنا اسی طرح ہے جس طرح بادلوں کے پیچہے چھپے سورج سے فیض حاصل کیا جاتا ہے“۔[کمال الدین، ج2، ص485]
خلاصہ: انتظار کرنے والے انسان کو ہر لحاظ سے تیار رہنا چاہئے چاہے فکری صورت ہو یا روحی، انتظام و اہتمام کا مسئلہ ہو یا عملی اقدامات ہوں۔
خلاصہ: جب تک خدا اپنی معرفت عطا نہ کرے تب تک ہم اس کے رسول کی شناخت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک رسول کو نہیں پہچانیں گے، اس وقت تک رسول کے جانشین کی معرفت کو حاصل کرنا اور اس پر ایمان رکھنا آسان نہیں ہے۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے اصحاب سب عاشورائی ہیں۔
خلاصہ: ہر انسان کے لیے ضروری ہے وہ اپنے امام کے ظہور کے لیے دعا کرے اور اہم یہ ہے کہ انسان کا ہر لمحہ اپنے امام کے لیے ہونا چاہیے۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل للہ تعالی فرجہ الشریف) کا وجود امان ہے اہل زمین کے لئے اور آپ کے ذریعہ بلائوں کو دور کیا جاتا ہے۔
خلاصہ: ہر چیز کی طرح انتظار کے بھی مراتب ہیں، اور اسکےمراتب اسکے مقدمات کے ذریعہ طے ہوتے ہیں جس کے اندر مقدمات قوی اور محکم ہونگے اسکا انتظار بھی اتنا ہی محکم اور قوی ہوگا۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل للہ تعالی فرجہ الشریف) کو ظھور کے نزدیک جاننا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
خلاصہ: جس شخس کو امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظھور کا جتنا یقین ہوگا اس کا ایمان اتنا ہی بلند ہوگا۔