اٴَمّٰا وَجْهُ الْاِنْتِفٰاعِ بِي فِي غَیْبَتِي فَكَالْاِنْتِفٰاعِ بِالشَّمْسِ إِذٰا غَیَّبَتْهٰا عَنِ الْاٴَبْصٰارِ السَّحٰابُ؛”لیکن میری غیبت میں مجھ سے فیض حاصل کرنا اسی طرح ہے جس طرح بادلوں کے پیچہے چھپے سورج سے فیض حاصل کیا جاتا ہے“۔[کمال الدین، ج2، ص485]
شرح:مندرجہ بالاحدیث مبارک میں امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ کو بادلوں کے پیچہے چھپے سورج سے تشبیہ دی ہے۔اس تشبیہ میں بہترین نکات پائیں جاتے ہیں، جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:۱۔ امام مھدی علیہ السلام نے اپنے کو سورج کے مشابہ قرار دیا ہے، جس طرح سورج موجودات کے لئے آب حیات اور نور و حرارت وغیرہ کا باعث ہوتا ہے اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں تمام موجودات کی زندگی سامان سفر باندھ لیتی ہے، اسی طرح معاشرہ کی معنوی زندگی اور اس کی بقاء بھی امام زمانہ علیہ السلام کے وجود سے وابستہ ہے۔ بعض اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام خلقت ِمخلوق کا اصلی ترین مقصد ہیں۔۲۔ جس طرح سورج منجملہ مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ موجودات کے لئے نور و حرارت سے فیضیاب ہونے میں واسطہ ہے۔ اسی طرح امام علیہ السلام کا وجود بھی مخلوق کے فیض حاصل کرنے میں ایک عظیم واسطہ ہے، اور خداوندعالم کا فیض جیسے نعمت اور ہدایت وغیرہ اسی واسطہ کے ذریعہ مخلوقات تک پھنچتا ہے۔۳۔ جس طرح لوگ بادلوں کے پیچہے سے سورج کے نکلنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اس سے مکمل اور کامل طور پر فائدہ اٹھاسکیں، امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں بھی مومنین آپ کے ظھور کا انتظار کرتے ہیں اور ان کے ظھور سے نا امید نہیں ہوتے۔۴۔ امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کا منکر بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی بادلوں کے پیچہے چھپےسورج کا منکر ہوجائے۔۵۔ جس طرح بادل سورج کو مکمل طریقہ سے نہیں چھپاتے اور سورج کا نور زمین اور زمین والوں تک پھنچتا رہتا ہے، اسی طرح غیبت بھی امام علیہ السلام کے فیض پھنچانے میں مکمل مانع نہیں ہے، لہٰذا (بہت سے مومنین) آپ کے وجود مبارک سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں، توسل: امام علیہ السلام سے فیضیاب ہونے کے منجملہ راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔
ماخذ:ابن بابويه، محمد بن علي ، ۳۱۱- ۳۸۱ق، كمال الدين و تمام النعمه،ج2، ص485، ح10،اشاعت: قم: مسجد مقدس جمكران ، ۱۳۸۲۔
Add new comment