امام بہارِ دل و جاں اور باعث طراوت و شادابی اور چشمۂ حیات ہے اور انسان کی اصلی طبیعت و حیات آپ کے ظہورِ مبارک سے آشکار ہو جائےگی اور وہی وہ موقع ہو گا کہ جب ہر ایک زندگی اور راحت کے اصلی مزے کو چکھے گا اور واقعاً اگر ایسا ہے تو آج جس طرح ہم زندگی گزار رہے ہیں اور اس سے دل کو خوش کر رہے ہیں وہ کیا ہے؟
شاید آپ نے بھی کبھی کچھ افراد کو دیکھا ہو گا کہ جن کے ذہن میں امام زمان(عجل) کا وجود مقدس اس شخص کی طرح سے ہے کہ جو شمشیر بہ کف ، خون کی ندیاں بہاتا ، گردنوں کو اڑتا، کشتے کے پشتے لگاتا ہوگا۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسے افراد اپنے طرز فکر اور کھلی گمراہ ذہنیت کے اشتباه کو دوسروں تک بھی منتقل کرتے رہتے ہیں اور حضرتؑ کے مہر بان وجود اور عدالت مآب شخصیت کو لوگوں کے ذہنوں اور فکروں میں مخدوش کر دیتے ہیں۔ اور قوم و ملت کے ایک بڑے طبقے کو آ پ کے مہر گستر ظہور سے خوفزدہ کر کے آپ کے ظہور کیلئے دعا کرنے سے منصرف کر دیتے ہیں۔
یہ بہت بڑی جفا ہے اس شخصیت پر جس کا وجود سراسر مہر و محبت و شفقت و رحمت ہے؛ حتیٰ کہ بعض متدین افرد بھی مزاح یا عدم توجہ کی بنا پر حضرت کے سلسلے میں منفی باتیں کہہ جاتے ہیں جیسے امام زمانہ کی شمشیر کو اپنی گردن یا دوسروں کی گردن پر چلنے کی بات کرتے ہیں۔
ریڈیو کے ایک پروگرام میں جو کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداه سے متعلق تھا ،اسٹوڈنٹس سے مسئلۂ ظہورکے سلسلے میں ان کےنقطۂ نظر کو جاننے کی کوشش کی گئی تو پتا چلا کہ سو میں سے ستّر اسٹوڈنٹ ایسے ہیں جو پسند نہیں کرتے کہ امام زمانہ علیہ السلام تشریف لائیں جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیوں آپ امامؑ کی طرف تمایل نہیں رکھتے؟تو انہوں نے کہا: اس لئے کہ اگر امام زمانہ علیہ السلام آئیں گے تو ہماری گردنیں اڑادیں گے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں پر امام عصر علیہ السلام کی غربت پر خون کے آنسو بہانے کا جی چاہتا ہے اور اس مصیبت پر گریبان چاک کرنے کا دل کرتا ہے کیا اس سے بڑی غربت تصور کی جاسکتی ہے؟
وہ امامِ مہربان کہ جس کے دوست اور چاہنے والے ہی نہیں بلکہ آپ کے دشمن بھی آپ کی برکت سے زندہ ہیں، سانس اور روزی حاصل کر رہے ہیں وہ امامِ مہربان کہ جو باپ سے زیادہ دل سوز ماں سے زیادہ مہربان اور بھائی سے زیادہ مددگار ہے۔ وہ امامِ مہربان کہ جس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس کے آنے کے بعد کسی یتیم کی آنکھوں میں آنسو نہ ہو گا، کوئی بھوک سے نہیں مرے گا، کوئی درد سے نہیں تڑپے گا، کوئی قید میں نہیں رہے گا، قرضدار اپنے قرض کو ادا کرنے سے عاجز نہیں رہے گا،کسی مفلس کو سڑک پر سونا نہیں پڑے گا، دستر خوان بغیر روئی کے نہیں رہے گا، وہ امامِ مہربان کہ جو مظلومین کی طرف سے انتقام لینے والا اور تاریخ کے ستائےہوئے لوگوں کی حمایت کرنے والا ہے، وہ امام کہ جس کا وعدہ ہے مصیبتوں کو ختم کرنے تکالیف کو دور کرنے اور بے سر و سامان کو ساماں رسانی پہنچانے کا اسکو شمشیر بکف اور خونخوار کی طرح متعارف کرانا ایک بہت بڑا ستم اور ناقابل معافی جرم ہے۔
اگر اب تک ہم انکی شمشیر برق رفتار کے بارے میں ہی گفتگو کرتے چلے آئے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ بارگاہ خداوندی میں توبہ و استغفار کریں اور خداوند متعال کے اس مظہر رحمت کی بارگاہ مقدس میں اتنی بڑی تہمت کیلئے معافی اور بخشش طلب کریں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ حجۃ ابن الحسن ارواحنافداہ کا وجود مقدس جو کہ خاتم الاوصیا ہیں بالکل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین کی طرح ہے اور آپ کے القاب کاشف البلویٰ، غوث ،رحمۃ الوسعۃ اوركہف ہیں[1] یہ سارے القابات، روایات و ادعیہ و زیارت میں حضرت کیلئے بہت دفعہ وارد ہوئے ہیں۔
جامعہ کبیرہ کہ جس میں امام علی نقی بن محمد ہادی علیہ السلام نے امام شناسی کے عالی ترین معارف کو زیارت کے پیرائے میں بیان کیا ہے، اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کو معدن رحمت ، اور نہایت درجہ بر د بار،تواضع، کرم و محبت کے منبع اصلی، غموں کو دور کرنے والے ، پریشانیوں کو آسان کرنے والے کے طور پر یاد کیا ہے۔
آٹھویں امام حضرت رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :
امام، ہمنشین، ہمدل، اور پدرِ مہربان اور بھائی سے بڑھ کر مددگارہے اور اسی طرح نیکو کار ماں سے بڑھ کر چھوٹے بچے کی بہ نسبت زیادہ مہربان اور بندگان خدا کی پناہ گاہ ہے۔[2]
پروردگار نے اس دورِ غیبت میں امام زمانہ ارواحنافداہ کو ملجاء و ماویٰ ، پناہ گا اور بے چاروں اور مجبوروں کا داد رس قرار دیا ہے ۔ آپ نجات بخش پیشوا اور روایات کے مطابق تمام لوگوں سے مہربان تر اور خوش خوتر ہیں، آپ اپنے زمانۂ ظہور میں مشفقانہ طور پر لوگوں کو دین حق کی طرف بلائیں گے ، کتب آسمانی کے حیرت انگریز علم کی تعلیم دیں گے، وعظ و نصیحت اور عصری تعلیمات کے ذریعہ ہر جگہ اور ہر ایک پر حجت تمام کر یں گے اس طرح کہ اگر کوئی تھوڑا سا بھی حق کو قبول کرنے کی آمادگی رکھتا ہو گا وہ راہ حق حاصل کر لے گا اسی وجہ سے بہت سارے اہل کتاب دھیرے دھیرے آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
مگر متوجہ رہیں کہ!! جس طرح پھول اور پودے پرورش پاتے ہیں انہیں کے ساتھ کچھ نقصاندہ گھاس بھی اُگ آتی ہیں اور پھول پودے کی پرورش میں مزاہم ہوتی ہیں جن کو اکھاڑ پھینکنا بہت ضروری ہوتا ہے، دھان کے ساتھ مریندا بھی ہوتا ہے جسے کسان اکھاڑ پھینکتا ہے،معاشرے کی صحت وسلامتی کے لیے بھی ایسا کرنا سوائے تیغِ عدالت الٰہی کے ممکن نہیں ہے کیونکہ جب عدالت کرسی نشین ہوگی تو ظلم نیست و نابود ہو جائےگا تا کہ مظلومین و ستم دیدهۂ تاریخ راحت کی سانس لے سکیں ظالموں کے وہ گروہ جو کسی بھی طرح راه مستقیم پر نہیں آتے نصیحت قبول نہیں کرتے اور کوئی بھی حربہ انکی اصلاح میں مؤثر نہ رہے گا تو ان کو راستہ سے ہٹا دیا جائےگا۔
کیا کبھی اپنے سوچا ہے کہ کیوں آ کے وجود مقدس کو طاوؤس اہل بہشت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے؟[3] شاید اس تشبیہ کی ایک لطافت یہ ہے کہ جب طاوؤس اپنے پَر پھیلاتا ہے تو نظروں کو خیرہ کر دیتا ہے ۔حضرتؑ بھی جب ظہور فرمائیں گے تو آپ کے ملکوتی وجود اور اپنی الٰہی سیرت سے دیکھنے والوں کو خیرہ اور عقل کو حیران کر دیں گے۔
زیارت امام زمان ارواحنافداہ کے بعض حصوں میں ہم پڑھتے ہیں:
اَلسَّلامُ عَلى رَبيعِ الاَنامِ وَنَضْرَةِ الاَيّامِ ؛دلوں کی بہار اور دنوں کی طراوت پر سلام۔
دعائے عہد میں بھی ہم خدا کے حضور فریاد کرتے ہیں:
خدایا !اس کے ہاتھوں سے اپنے شہروں کو آباد کر دے اور اپنے بندوں کو بھی زندگی بخش دے۔
امام بہارِ دل و جاں اور باعث طراوت و شادابی اور چشمۂ حیات ہے اور انسان کی اصلی طبیعت و حیات آپ کے ظہورِ مبارک سے آشکار ہو جائےگی اور وہی وہ موقع ہو گا کہ جب ہر ایک زندگی اور راحت کے اصلی مزے کو چکھے گا اور واقعاً اگر ایسا ہے تو آج جس طرح ہم زندگی گزار رہے ہیں اور اس سے دل کو خوش کر رہے ہیں وہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] اصول کافی: ۱۔ ۵۲۸( حدیث لوح) زیارت آل یاسین (۔۔۔ والغوث والرحمة الواسعة)
[2] اصول کافی: ا- ۲۰۰ ۔کتاب الحجہ، باب نوادر، جامع فی فضل الامام وصفاتہ ۵ اح 1۔
[3] بحار الانوار: ا۵- ۹۱۔
Add new comment