عبدالله قروی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں فضل بن ربيع کی خدمت میں پہنچا تو وہ گھر کی چھت پر تھے ، انہوں نے مجھے اپنے قریب بلایا ، میں ان کے قریب گیا اور ان کے سامنے کھڑا ہوگیا ، انہوں نے کہا کہ اس کمرے کی جانب دیکھو ! میں نے دیکھا ، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے ان کے جواب میں کہا کہ ایک کپڑا جو زمین پر گرا ہوا ہے ! انہوں نے کہا کہ بغور دیکھو ! جب ہم نے بغور دیکھا تو جواب دیا کہ ایک مرد کو دیکھ رہا ہوں تو جو سجدہ کی حالت میں ہے !
فضل بن ربيع نے کہا کہ انہیں پہچانتے ہو ؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں ! تو انہوں نے کہا کہ وہ تمھارے مولا و اقا ہیں ! میں نے کہا کہ کون میرے مولا و اقا ؟ تو انہوں ںے کہا کہ نادان بننے کی کوشش کر رہے ہو ؟! میں نے کہا کہ نہیں ! تو انہوں نے کہا کہ وہ ابوالحسن موسی ابن جعفر الکاظم علیہ السلام ہیں ، میں شب روز ان پر نگاہ رکھتا ہوں مگر میں نے انہیں ہمیشہ اسی سجدہ کی حالت میں دیکھا ہے ، وہ نماز صبح پڑھتے ہیں اور پھر طلوع افتاب تک تعقیبات میں مصروف رہتے ہیں اور ظھر کے قریب تک سجدہ کی حالت میں ہی رہتے ہیں ، انہوں نے زندان کے بعض ملازموں کے سپرد کر رکھا ہے کہ جب نماز ظھر کا وقت ہوجائے تو انہیں اطلاع دے دیں اور جب ظھر کا وقت ہوجاتا ہے تو ابوالحسن موسی ابن جعفر الکاظم علیہ السلام نماز ظھر پڑھنا شروع کردیتے ہیں ۔ میں اس بات سے بخوبی اگاہ ہوں کہ سجدہ کی حالت میں وہ سوئے نہیں ہیں ۔ [3]
مومن کیلئے دعا
علي بن ابراهيم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے عبد الله بن جندب کو عرفات میں دیکھا اور ان سے بہتر کسی کو وہاں نہ پایا ، وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اسمان کی جانب بلند کرکے مسلسل دعائیں مانگ رہے تھے اور ان کے رخسار پر جاری انسو کے قطرات زمین پر بہ رہے تھے ، جب لوگ وقوف سے لوٹے تو میں کہا کہ یا ابا محمد ! میں نے اپ سے بہتر حج میں نہیں دیکھا ! تو جواب دیا کہ خدا کی قسم میں نے دعا نہیں مانگی مگر مومن بھائیوں کے لئے چونکہ ابوالحسن موسی بن جعفر الکاظم عليه السلام نے مجھ سے فرمایا ہے کہ مومن بھائیوں کی پشت پر دعا کرنے والے کے لئے عرش سے آواز آتی ہے کہ اگاہ رہو تمھارے لئے اس کے ایک لاکھ برابر ہے « و ذلك ان اباالحسن موسي بن جعفر عليه السلام أَخبرني انه من دعا لاخيه بظهر الغيب نودي من العرش: ها، و لك ماة الف ضعفٍ مثلِه» مجھے پسند نہیں ہے کہ ایک لاکھ برابر تضمین شدہ کو چھوڑ دوں ایک مستحب دعا کے لئے جس کے سلسلہ میں نہیں جانتا ہوں کہ وہ قبول ہوگی یا نہیں ! ۔ [4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار ، ج 48 ، ص 210 ۔
۲: کلینی ، اصول كافی ، ج 4 ، ص 465 ، كتاب الحج ۔
Add new comment