خلاصہ: امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام) خداوند متعال کی جانب سے اس بات کے لئے معمور تھے کہ لوگوں کو سیدھے راستہ کی جانب ہدایت فرمائے اور آپ نے اپنے اس کام کے لئے کسی طرح کی کوئی بھی کوتاہی نہیں کی.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اکثر انسان جب اپنے چاہنے والوں یا دوست اور احباب سے ملتے ہیں تو بڑی محبت اور خلوص کے ساتھ ملتے ہیں، لیکن جب یہی افراد کسی ایسے شخص سے ملاقات کرتے ہیں جو فکری یاعلمی یا کسی اور طریقہ سے ان کے مخالف ہے تو وہ ان سے اخلاق کے ساتھ پیش نہیں آتے کیونکہ وہ ان کو اپنا فکری یا علمی دشمن سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ اگر غور کیا جائے تو اپنوں سے تو کوئی بھی پیار اور محبت سے ملتا ہے، انسان کا کمال یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے دشنوں سے پیار اور محبت کے ساتھ پیش آئے، اگر اس طرح کا اخلاق دیکھنا ہے تو ہمیں معصومین(علیہم السلام) کی طرف رخ کرنا ہوگا کیونکہ انھوں نے اس طرح کے اخلاق کے بہت زیادہ نمونے پیش کئے، اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں ساتویں امام، امام موسی کاظم(علیہ السلام) کے ایک واقعہ کو بیان کیا جارہا ہے تا کہ ہم آپ کے ان اخلاق کو دیکھ کر ان کے طرح لوگوں کے ساتھ اخلاق اسلامی پیش کرتے ہوئے نظر آئیں۔
روایت میں نقل ہوا ہے کہ دوسرے خلیفہ کا ایک بیٹا مدینہ میں امام کاظم(علیہ السلام) کو بہت زیادہ اذیتیں دیا کرتا تھا اور آپ کو پریشان کیا کرتا تھا، جب بھی وہ آپ سے روبرو ہوتا تھا تو وہ آپ کے ساتھ بدکلامی شروع کرتا تھا یہاں تک کہ امام علی(علیہ السلام) کی توہیں کیا کرتا تھا۔
امام(علیہ السلام) کے بعض اصحاب نے امام(علیہ السلام) سے عرض کیا کہ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کردیں۔ لیکن امام(علیہ السلام) نے بہت سختی کے ساتھ اپنے اصحاب کو یہ کام کرنے سے منع فرمایا اور اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے اس شخص کے بارے میں پوچھا کہ وہ اپنی زراعت کہاں پر کرتا ہے۔ اس کے بعد امام(علیہ السلام) اس شخص کے پاس گئے جہاں پروہ زراعت کیا کرتا تھا، آپ نے نھایت پیار اور محبت کے ساتھ اس شخص سے ملاقات کی اس کے بعد اس شخص سے پوچھا: تو نے اپنی زراعت کے لئے کتنا خرچ کیا ہے؟
اس نے جواب میں کہا: سو دینار۔
امام(علیہ السلام) نے پوچھا: زراعت کے بعد تجھے اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟
اس نے کہاں: میں علم غیب نہیں رکھتا۔
امام(علیہ السلام) نے پوچھا: تم اس سے کتنے فائدے کی امید رکھتے ہو؟
اس نے کہا: دو سو دینار۔
امام(علیہ السلام) نے ایک کیسہ اس کو دیا جس میں تین سو دینار تھے اور فرمایا: زراعت میں جو فائدہ ہوگا وہ بھی تو ہی رکھ لے اور تو جو اس کے بارے میں امید لگا کر بیٹھا ہے خدا تجھے وہ نصیب فرمائے۔
اس شخص نے امام(علیہ السلام) کے سر کا بوسہ دیا اور کہا کہ میری غلطیوں کو معاف کردیجئے۔
امام(علیہ السلام) مسکرائے اور واپس چلے گئے۔
امام(علیہ السلام) جب مسجد گئے تو آپ نے کیا دیکھا کہ وہ شخص وہاں پر بیٹھا ہوا ہے، جب اس شخص کی نظر امام(علیہ السلام) پر پڑی تو اس نے کہا: «اللَّهُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسالَتَهُ[سورۂ انعام، آیت:۱۲۴] اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے گا».
اصحاب نے امام(علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ کیسے ہوگیا؟
امام(علیہ السلام) نے فرمایا: دیکھا یہ پہلے کچھ اور کہتا تھا اور اب کچھ اور کہرہا ہے۔
جب امام(علیہ السلام) اپنے گھر لوٹے تو وہ لوگ جو یہ چاہرہے تھے کے اس شخص کو قتل کردیں ان لوگوں سے فرمایا: وہ بہتر تھا یا یہ، جو تم لوگ چاہرہے تھے، میں نے کچھ مال کے ذریعہ اس کو صحیح راستے کی طرف راہنمائی کی اور اس کے ذریعہ اس کے شر سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا[۱]۔
نتیجہ:
اگر ہم اپنے اخلاق کی معصومین(علیہم السلام) کی طرح بنانے کی کوشش کریں تو ہمیں اپنی زبان سے کچھ کہنے کی ضروری نہیں پڑیگی بلکہ لوگ ہمارے کردار کو دیکھ کر خود با خود اپنے آپ کو صحیح راستہ پر گامزن رکھنے کی کوشش کرینگے۔
_______________________________
حوالہ:
[۱] بحارالانوار، علامه مجلسی، ج۴۸، ص۱۰۲، دار احياء التراث العربي، بيروت، ۱۴۰۳ق.
روایت میں نقل ہوا ہے کہ دوسرے خلیفہ کا ایک بیٹا مدینہ میں امام کاظم(علیہ السلام) کو بہت زیادہ اذیتیں دیا کرتا تھا اور آپ کو پریشان کیا کرتا تھا، جب بھی وہ آپ سے روبرو ہوتا تھا تو وہ آپ کے ساتھ بدکلامی شروع کرتا تھا یہاں تک کہ امام علی(علیہ السلام) کی توہیں کیا کرتا تھا۔
امام(علیہ السلام) نے اس شخص کے بارے میں پوچھا کہ وہ اپنی زراعت کہاں پر کرتا ہے۔ اس کے بعد امام(علیہ السلام) اس شخص کے پاس گئے جہاں پروہ زراعت کیا کرتا تھا، آپ نے نھایت پیار اور محبت کے ساتھ اس شخص سے ملاقات کی اس کے بعد اس شخص سے پوچھا: تو نے اپنی زراعت کے لئے کتنا خرچ کیا ہے؟
اس نے جواب میں کہا: سو دینار۔
امام(علیہ السلام) نے پوچھا: زراعت کے بعد تجھے اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟
اس نے کہاں: میں علم غیب نہیں رکھتا۔
امام(علیہ السلام) نے پوچھا: تم اس سے کتنے فائدے کی امید رکھتے ہو؟
اس نے کہا: دو سو دینار۔
امام(علیہ السلام) نے ایک کیسہ اس کو دیا جس میں تین سو دینار تھے اور فرمایا: زراعت میں جو فائدہ ہوگا وہ بھی تو ہی رکھ لے اور تو جو اس کے بارے میں امید لگا کر بیٹھا ہے خدا تجھے وہ نصیب فرمائے۔
اس شخص نے امام(علیہ السلام) کے سر کا بوسہ دیا اور کہا کہ میری غلطیوں کو معاف کردیجئے۔
امام(علیہ السلام) مسکرائے اور واپس چلے گئے۔
* بحارالانوار، علامه مجلسی، ج۴۸، ص۱۰۲، دار احياء التراث العربي، بيروت، ۱۴۰۳ق.
Add new comment