خلاصہ: جو شخص بیکار کی باتیں کرتا ہے وہ اپنے فرشتوں کے ذریعہ ایسے پیغام کو خدا تک پہونچاتا ہے جس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم لوگ اکثر اوقات اپنا وقت بیکار کی گفتگو میں ضائع کردیتے ہیں، کبھی ہنسی مذاق کرتے ہوئے کبھی لوگوں کی غیبت کرتے ہوئے کبھی دوسروں کی توہین کرتے ہوئے اسی طرح ایسی گفتگوکرتے ہیں جس کا ہمیں نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ آخرت میں۔
اس قسم کی بیکار باتوں کو کرنے سے ہماری اہمیت ختم ہوجاتی ہے ہماری کوئی عزت نہیں رہتی اسی لئے روایتوں میں اس قسم کی بیکار باتوں کو کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ اس کی مذمت کی گئی ہے، کیونکہ ایسی گفتگو بے فائدہ اور عبث ہے اور عاقل انسان عبث اور بے فائدہ عمل کا انجام نہیں دیتا۔
اس کے بارے میں عبد العظیم حسنی، امام موسی کاظم(علیہ السلام) سے نقل کررہے ہیں کہ امام موسی کاظم(علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے اس طرح نقل کیا ہے: «مَرَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِين،عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِرَجُلٍ يَتَكَلَّمُ بِفُضُولِ الْكَلَامِ فَوَقَفَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا هَذَا إِنَّكَ تُمْلِي عَلَى حَافِظَيْكَ كِتَاباً إِلَى رَبِّكَ فَتَكَلَّمْ بِمَا يَعْنِيكَ وَ دَعْ مَا لَا يَعْنِيك؛ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(علیہا السلام) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو زیادہ باتیں کررہا تھا تو آپ اس کے پاس کھڑے ہوگئے اور اس سے فرمایا: اے شخص! یقیناً تم اپنے نگہبان فرشتوں کو ایسی چیزیں کتاب کی شکل میں تحریر کروا رہے ہو جو تمھارے پروردگار کی جانب جارہی ہے، لہذا ایسی باتیں کرو جو تمھیں فائدہ پہونچائے اور جو چیزیں تمھیں فائدہ نہیں پہونچاتی انہیں چھوڑ دو»۔[بحار الانوار، ج:۶۸، ص:۲۷۶]
*بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج:۶۸، ص:۲۷۶، دار إحياء التراث العربي, بیروت، ۱۴۰۳۔
Add new comment