امام کاظم اور ابوحنیفہ کی گفتگو

Sat, 02/26/2022 - 08:09
امام موسی کاظم (ع)

حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم علیہ السلام سن 128 هجری قمری میں ابواء علاقہ میں پیدا ہوئے ، اپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام و اپکی والدہ گرامی حمیدہ سلام اللہ علیھا ہیں ۔

25 رجب المرجب سن 183 هجری قمری کو بغداد میں اپکی شھادت ہوئی اپ کی شخصیت ، اپ کا علم اور کردار کسی پر پوشیدہ نہیں ہے شیعہ اور اہل سنت دونوں ہی نے اپکی شخصیت کے بارے میں مفصل مطالب تحریر کئے ہیں ۔

کمسنی اور بچنے ہی میں امام موسی بن جعفر الکاظم علیہ السلام کی علمی منزلت اور اور اپ کا مقام خاندان اہلبیت علیہم السلام کی عظمت و بلندی کا بیانگر رہا اور اس کا لازمہ اپکی پیروی و اطاعت ہے ، ائمہ معصومین (ع) کے علم کے سمندر کی تہہ کا پتا لگانا ، علم کے دریا میں غوطہ زن افراد کے بھی بس کی بات نہیں ۔

امام کاظم (ع) نے بھی دیگر اماموں کی طرح حق و باطل کی جدائی ، صحیح عقائد و اسلامی نظریات سے لوگوں کو اشنا کرنے میں کسی قسم کی کسر اور کمی نہ چھوڑی اس راہ میں اپ کا کردار اور اپ کی فعالیت زبان زد عام و خاص ہے  ۔

امام موسی کاظم (ع) کا دور امامت مختلف اسلامی فرقے وجود میں آنے کا دور ہے ، اس زمانے میں خوارج، معتزلہ، مرجئہ اور بہت سارے دیگر گمراہ فرقے ہر کونے اور گوشے سے سر ابھار رہے تھے ۔

ابوحنیفہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق [علیه السّلام] کے زمانے میں حج کو گیا اور جب مدینہ پہنچا تو حضرت کے گھر گیا اور اجازت لینے کی غرض سے اپ کی دہلیز پر بیٹھ گیا کہ ناگہاں ایک نوجوان بچہ گھر سے باہر ایا ، میں نے اس سے کہا کہ بیٹے غریب مسافر جب اپ کے شھر میں ائے تو کس دیوڑھی پر اپنی ضرورت لے کر جائے ؟ لڑکے نے جواب دیا ، تشریف رکھیں اور خود بھی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور کہا « نہروں سے دور ، درختوں کے نیچے ، مسجدوں کے سایہ میں ، سڑکوں کے درمیان اور نگاہوں سے اجھل» میں اس بچہ کی باتیں سنکر انگشت بدنداں رہ گیا اور اس سے پوچھا کہ تمھارا نام کیا تو اس نے جواب دیا  «موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابیطالب» اس سے سوال کیا کہ بیٹے گناہگار کون ہے ؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ تین حالتوں سے باہر نہیں ہے :

1 ۔ یا خدا کی جانب سے ہے کہ یقینا اس کی طرف سے نہیں ہے کیوں کہ اس کی ذات ان چیزوں سے پاک و منزہ ہے ۔

2 ۔ یا خدا اور بندہ دونوں کی جانب سے ہے کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کیوں کہ ایک قدرتمند وجود کیلئے کمزور انسان کو اپنے عمل میں شریک بنانا مناسب نہیں اور ناتوان پر ستم ہے ۔

3 ۔ یا بندہ کی جانب سے ہے کہ اس حالت میں خدا اس کی گناہوں سے درگذر کرے تو یہ اس کا کرم اور اس کی عنایت ہے اور اگر اس کا مواخذہ اور اسے سزا دینا چاہے تو جرم کی وجہ سے ہے ۔

ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السّلام ملاقات نہ کی اور لوٹ ایا کیوں کہ جو کچھ بھی سنا تھا اس کے سننے کے بعد ملاقات کی حاجت بہ رہی ۔ [1]

نتیجہ: نور حق اور مکتب اہل بیت علیھما السلام خاموش ہونے والا نہیں ، عباسی حکمراں نے ہمیشہ بنی ہاشم کو مٹانے ، نابود کرنے اور سیاسی میدان سے ہٹانے کی کوشش کی مگر اپنے مذموم مقاصد میں ناکام رہے ، بنی ہاشم اور سادات نہ یہ کہ مٹ نہ سکے بلکہ بڑھتے گئے اور اج ان کا نام دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہے ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] تحف العقول ، ابن شعبة الحرانی ، ج 1 ، ص 411 ۔ من اعلام القرن الرابع عنى بتصحيحه والتعليق عليه على اكبر الغفاری ، الطبعة الثانية 1363 - ش 1404 - ق مؤسسة النشر الاسلامي (التابعه) لجماعة المدرسين بقم المشرفة ايران ۔

» وقال أبو حنيفة حججت في أيام أبي عبد الله الصادق عليه السلام فلما أتيت المدينة دخلت داره فجلست في الدهليز أنتظر إذنه إذ خرج صبي يدرج ، فقلت: يا غلام أين يضع الغريب الغائط من بلدكم ؟ قال: على رسلك . ثم جلس مستندا إلى الحائط. ثم قال: توق شطوط الانهار ومساقط الثمار وأفنية المساجد وقارعة الطريق وتوار خلف جدار وشل ثوبك . ولا تستقبل القبلة ولا تستدبرها. وضع حيث شئت. فأعجبني ما سمعت من الصبي، فقلت له: ما اسمك ؟ فقال: أنا موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب. فقلت له: يا غلام ممن المعصية ؟ فقال عليه السلام: إن السيئات لا تخلو من إحدى ثلاث: إما أن تكون من الله وليست منه فلا ينبغي للرب أن يعذب العبد على ما لا يرتكب. وإما أن تكون منه ومن العبد وليست كذلك، فلا ينبغي للشريك القوي أن يظلم الشريك الضعيف. وإما أن تكون من العبد وهي منه، فإن عفا [ ف‌ ] بكرمه وجوده، وإن عاقب فبذنب العبد وجريرته. قال أبو حنيفة: فانصرفت ولم ألق أبا عبد الله عليه السلام واستغنيت بما سمعت « ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 49