مشورہ، امام کاظم(علیہ السلام) کی نظر میں

Tue, 06/06/2017 - 10:36

خلاصہ: امام موسی کاظم(علیہ السلام)، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتویں جانشین تھے جس کو خداوند متعال نے امامت کا منصب عطاء فرمایا اور  آپ کو لوگوں کی ہدایت کے لئے انتخاب فرمایا۔ امام(علیہ السلام) نے اپنی پوری زندگی اس بات کے  لئے صرف کردی کہ لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرمائے۔

مشورہ، امام کاظم(علیہ السلام) کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     خداوند متعال نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد لوگوں کو کسی ہادی کی ہدایت سے محروم نہیں رکھا بلکہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد اہل بیت(علیہم السلام) کو ہادی اور امام کے عنوان سے لوگوں کی ہدایت کے لئے منصوب کیا۔ تمام اماموں نے اللہ کے عطاء کردہ علم اور احکام کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت فرمائی اور لوگوں کو گمراہی اور جھالت سے نجات دلائی، جو کوئی ان کے اقوال اور نصیحتوں پر عمل کریگا بے شک وہ کامیاب اور کامران ہوگا۔ کیونیکہ ان کی نصیحتیں دنیا اور آخرت دونوں میں کام آنے والی ہیں اور ہم کو سیدھے راستےکی ہدایت کرنے والی ہیں۔ اسی مقصد کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام) نے مشورہ کرنے کے بارے میں جو فرمایا ہے اس کی بیان کیا جارہا ہے تاکہ مشورہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہم اپنے آپ کو لوگوں کے مشوروں سے بے نیاز نہ سمجھیں۔
     اسلام میں مشورہ کو بہت اہمیت دی ہے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ  و سلم)، وحی آسمانی سے قطع نظر ایسی قوت فکر کے مالک تھے کہ انہیں کسی قسم کے مشورہ کی ضرورت نہ تھی، پھر بھی آپ مسلمانوں کو مشورہ کی اہمیت بتلانے کے لئے معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے اور خصوصیت کے ساتھ صاحب الرائے افراد کی قدردانی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض دفعہ ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی رائے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔
     جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں کے صلاح مشورہ سے بے نیاز سمجھتے ہیں وہ کتنے ہی بڑے صاحب فکر و نظر کیوں نہ ہوں زیادہ تر خطرناک اور المناک اشتباہات میں گرفتار ہو جاتے ہیں، مشورے سے بے نیازی کی وجہ سے موجود استعدادیں ختم ہو جاتی ہیں، جو شخص اپنے کام دوسروں کے صلاح مشورہ سے کرتا ہے اگر وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائے تو دوسرے لوگ اس کو حسد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ دوسرے لوگ اس کی کامیابی کو اپنی طرف سے ہی سمجھتے ہیں اور عموما ً انسان اس کام سے حسد نہیں کرتا جسے اس نے خود انجام دیا ہو اور اگر وہ کبھی شکست کھا جائے تو وہ دوسروں کے اعتراضات کا نشانہ نہیں بنتا کیونکہ کوئی شخص اپنے کام کے نتیجہ پر اعتراض نہیں کرتا نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں کرتا بلکہ ہمدردی اور غمخواری بھی کرتا ہے۔
     مشورہ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان دوسرے افراد کی شخصیت کی قدر و قیمت اور ان کی دشمنی اور دوستی کا اندازہ بھی لگالیتا ہے اور یہ چیز کامیابی کے لئے در کنار شناسائی کا بھی سبب بنتی ہے۔
     اسلامی روایات میں مشورہ کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ایک حدیث امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام)نے فرمایا: «مَنِ اسْتَشَارَ لَمْ يَعْدَمْ عِنْدَ الصَّوَابِ مَادِحاً وَ عِنْدَ الْخَطَاءِ عَاذِراً[۱] جس شخص نے مشورہ کیا ہو، اگر اس نے مشورہ کے ذریعہ سیدھے راستے کو انتخاب کیا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، اور اگر مشورے کے بعد غلط راستہ کا انتخاب کیا ہے تو لوگ اس کو معذور جانتے ہیں».
     جس طرح اسلام میں مشورہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اسی طرح ان افراد کے بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں کہ کن کن افراد سے مشورہ کرنا چاہئے، مثلا مشورہ دینے والوں کے لئے بیان کیا گیا ہے کہ وہ خیرخواہی کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ مشورے میں خیانت کرنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ یہ حکم غیر مسلموں کے لئے بھی ہے کہ وہ مشورہ طلب کریں تو ان سے کسی قسم کی خیانت نہ کی جائے اور جو صحیح رائے ہو وہی انہیں دی جائے۔
     امام(علیہ السلام) مشورہ دینے والے کے بارے میں فرماتے ہیں:«و حق المستشیران علمت لہ رایاً اشرف علیہ وان لم تعلم ارسدتہ الی من یعلم وحق المشیر علیک ان لا تتھمہ فیما لا یوافقک من رایہ[۲]تجھ سے مشورہ کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اگر کوئی نظریہ رکھتے ہو تو اسے بتا دو اور اگر اس کام کے بارے میں تجھے علم نہیں تو اسے ایسے شخص کی طرف راہنمائی کرو جو جانتا ہے اور مشورہ دینے والے کا حق تجھ پر ہے کہ جس نظریہ میں وہ تمہارا موافق نہیں ہے اس میں اس پر تہمت تراشی نہ کرو».

نتیجہ:
     اسلام میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے کے بارے میں بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے. مشورہ ایک چراغ کی طرح ہے جو راستہ کو دکھاتا ہے، بس اس بات کا تصور کرنا کافی ہے کہ جب کچھ چراغ تاریک راستوں  میں جلادئے جائے تو وہاں پر روشنائی کی کیا چمک ہوگی، چھوٹے سے چھوٹا  پتھر جو اذیت کرسکتا ہے وہ بھی دکھائی دینے لگیگا۔ اسی طرح ایک دوسرے سے مشورہ کرنا بھی ہے، انسان مشورہ کے ذریعہ چھوٹی سے چھوٹی غلطی کی طرف بھی متوجہ ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] بحار الانوار ، علامه مجلسى‏، ج۷۲، ص۱۰۴، دار إحياء التراث العربي‏، بيروت‏، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
[۲] گذشتہ حوالہ، ج۷۱، ص۸۔

 

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     اسلام میں مشورہ کو بہت اہمیت دی ہے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ  و سلم)، وحی آسمانی سے قطع نظر ایسی قوت فکر کے مالک تھے کہ انہیں کسی قسم کے مشورہ کی ضرورت نہ تھی، پھر بھی آپ مسلمانوں کو مشورہ کی اہمیت بتلانے کے لئے معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے اور خصوصیت کے ساتھ صاحب الرائے افراد کی قدردانی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض دفعہ ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی رائے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔
     جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں کے صلاح مشورہ سے بے نیاز سمجھتے ہیں وہ کتنے ہی بڑے صاحب فکر و نظر کیوں نہ ہوں زیادہ تر خطرناک اور المناک اشتباہات میں گرفتار ہو جاتے ہیں، مشورہ سے بے نیازی کی وجہ سے موجود استعدادیں ختم ہو جاتی ہیں، جو شخص اپنے کام دوسروں کے صلاح مشورہ سے کرتا ہے اگر وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائے تو دوسرے لوگ اس کو حسد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ دوسرے لوگ اس کی کامیابی کو اپنی طرف سے ہی سمجھتے ہیں اور عموما ً انسان اس کام سے حسد نہیں کرتا جسے اس نے خود انجام دیا ہو اور اگر وہ کبھی شکست کھا جائے تو وہ دوسروں کے اعتراضات کا نشانہ نہیں بنتا کیونکہ کوئی شخص اپنے کام کے نتیجہ پر اعتراض نہیں کرتا نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں کرتا بلکہ ہمدردی اور غمخواری بھی کرتا ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 51