امامت
اٴَوَ مٰا رَاٴَیْتُمْ كَیْفَ جَعَلَ اللهُ لَكُمْ مَعٰاقِلَ تَاٴوُونَ إِلَیْهٰا، وَ اٴَعْلاٰماً تَهْتَدُونَ بِهٰا مِنْ لَدُنْ آدَمَ (علیه السلام)؛”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خداوندعالم نے کس طرح تمھارے لئے پناہ گاھیں قرار دی ہیں تاکہ ان میں پناہ حاصل کرو، اور ایسی نشانیاں قرار دی ہیں جن کے ذریعہ ہدایت حاصل کرو، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک۔[بحار الانوار، ج 53، ص 179، ح 9۔]یہ تحریر اس توقیع کا ایک حصہ ہے جس کو ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعوں کے درمیان ہونے والے اختلاف کی وجہ سے امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے، ابن ابی غانم کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیاہے، اور سلسلہ امامت آپ ھی پر ختم ہوگیا ہے۔ شیعوں کی ایک جماعت نے حضرت امام مھدی علیہ السلام کو خط لکھا جس میں واقعہ کی تفصیل لکھی، جس کے جواب میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ایک خط آیا، مذکورہ حدیث اسی خط کا ایک حصہ ہے۔
خلاصہ: حکومتوں کے مختلف شرائط ہوتے ہیں، جو حکومت نظامِ ولایت کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہو، اس کے بھی کچھ شرائط اور صفات ہیں، ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: ولایت اور حکومت، اللہ تعالیٰ کا حق ہے، لہذا جسے اللہ اذن دے وہی شخص حکومت کرسکتا ہے۔
خلاصہ: خلافت، امامت اور حکومت کے منصب کو جس کے لئے اللہ تعالیٰ مقرر کرے، صرف وہی اسے سنبھالنے کا حقدار ہے، اگر کوئی اللہ کی اجازت اور اذن کے بغیر ایسے منصب کا دعویدار بن جائے تو وہ غاصب ہے۔
خلاصہ: ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے فضائل و کمالات کو شمار نہیں کیا جاسکتا، مختصر معرفت کے لئے چند صفات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: امام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن، احادیث اور عقل کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ امام کی پہچان ضروری ہے۔
حضرت علی(ع) کے نزدیک ملک وبادشاہی جو حق کو قائم کرنے اورباطل کو زائل کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیاکی پست ترین چیزوں سے بھی زیادہ پست تھی، یہی سبب ہے حضرت علی(ع)کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتیوں سے بھی کمتر تھی، جس میں سماج کے ستم زدہ اور مظلوموں کو انصاف نہ مل سکے، اسی تناظر میں مندرجہ ذیل مختصر توشتہ خود امیرالمؤمنین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کی خلافت ظاہری سے پہلے دین کی حالت کیا تھی۔
یقیناً پیغمبر اکرم[ص] اور انکے اہلبیت[ع]کشتی نجات اور ہدایت کے منارے ہیں۔
خلاصہ: قرآن نے احکام کو کلی طور پر بیان کیا ہے، اس کی تشریح اور تفسیر کی ذمہ داری رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سپرد کردی ہے۔
خلاصہ: آیتِ اکمال دین اور اتمامِ نعمت پر غور کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین اور نعمت تب مکمل ہوئے جب حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان ہوگیا، لہذا اعمال اور عبادات کی قبولیت کی بنیاد اور شرط ولایت ہے۔