امامت
خلاصہ: امام چونکہ معصوم ہے تو اللہ تعالی کے حلال و حرام کو اسی طرح بیان اور جاری کرتا ہے جیسا اللہ نے حکم دیا ہے اور اللہ کی حدود کو جاری کرتا اور اللہ کے دین کی حفاظت کرتا ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ کی طرف اچھے طریقہ سے بلاتا ہے۔
خلاصہ: دین چونکہ اللہ کی طرف سے ہے تو امام کو بھی اللہ کی طرف سے منصوب ہونا چاہیے تا کہ دین الہی کو زمین پر نافذ کرسکے، امام کیونکہ دین کے ہر مسئلہ سے آگاہ ہے تو دین کی باگ ڈور اللہ نے اسی کے ہاتھ میں دی ہے۔
خلاصہ: امامت کوئی عوامی مقام نہیں ہے جس کے لئے لوگ خود کسی کو منتخب کرلیں، بلکہ امامت اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت ہے، لہذا صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو امام بنائے۔ بنابریں لوگوں کا اس بارے میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یقیناً ان کا انتخاب غلط ہوگا جیسا کہ نسل انسانیت اپنے انتخاب کا نتیجہ ہر دور میں دیکھتی آرہی ہے جو سراسر ظلم و فساد ہے۔
خلاصہ: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امتحانات کے بعد اور چار مقامات کے بعد مقام امامت پر اللہ کی طرف سے فائز ہوئے، لہذا مقام امامت پر اچانک نہیں پہنچا جاسکتا اور پھر جس کو اللہ چاہے امام بنائے، کوئی اپنی کوشش سے بھی امام نہیں بن سکتا۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظھور کے بعد خدا کا وعدہ پور ہوگا۔
خلاصہ: خدا تک پہونچنے کا واحد راستہ امام ہی ہے۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) نے ائمہ(علیہم السلام) کے علم کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا ہے: گذشتہ کا علم، آئندہ کا علم اور علم حادث۔ ان تین قسموں کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ(علیہم السلام) کو گذشتہ اور آئندہ کے ہر واقعہ کا علم ہوتا ہے۔