توحید
قرآن کوئی فلسفے کی کتاب نہیں ہے اس کے باوجود اپنے نقطۂ نظر کو اس نے کائنات، انسان اور معاشرے کے بارے میں - جو کہ فلسفے کے تین بنیادی موضوع ہیں- کُھل کر اور قاطعانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ قرآن اپنے پیروکاروں کو صرف قانون تعلیم نہیں دیتا ہے اور نہ صرف وعظ و نصیحت کی ہی تعلیم دیتا ہے بلکہ اپنے پیروکاروں کے سامنے خلقت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے انھیں طرزِ تفکّر اور سوچنے کا ایک خاص طریقہ اور عالمی نظریہ بھی دیتا ہے۔ سماجی امور جیسے جائیداد، حکومت، خاندانی حقوق وغیرہ میں اسلامی احکام کی بنیاد وہ تفسیر و تشریح ہے کہ جو وہ خلقت و اشیاء کے بارے میں پیش کرتا ہے۔
ابتدائی تخلیق کے بعد مخلوق کی ضرورت پوری اور ختم نہیں ہوجاتی۔ چونکہ ضرورت اور محتاجی مخلوقات کی فطرت اور ان کی ذات کا خاصّہ ہے اور وہ ہر نَفَس اور ہر آن، دَم بہ دَم وہ بس خدائی فضل سے قائم و دائم ہے اور ان کا وجود پوری طرح سے خدا ہی کے فضل و کرم اور اسی کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔یہی وہ منزل و مقا
توحید کا ایک واضح اور فطری مطلب ہے، اور وہ ہے خدا کو ایک جاننا اور غیر خدا کو خدا سے تشبیہ دینے سے انکار کرنا۔ لیکن عقائد کی کتابوں میں توحید کے موضوع پر مختلف زاویوں سے بحثیں موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے لحاظ سے ایک جہت میں تشبیہ کی نفی کو واضح کرتی نظر آتی ہیں ۔ ہم بھی توحید کے موضوع پر موجود رائج تقسیم بندی کے اعتبار سے ہی بحث کو آگے بڑھائیں گے۔ توحید کی مشہور تقسیموں میں سے ہم توحید ذات، توحید صفات وغیرہ کا ذکر کر سکتے ہیں۔ علمِ کلام میں استعمال ہونے والی ان اصطلاحات کی کوئی عقلی یا نقلی حدود نہیں ہیں اور یہ ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مستقل بھی نہیں ہیں۔
ایک منطقی تقسیم کی بنیاد پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے والی دلیلوں[1]، کو تین حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے:الف) وہ دلیلیں کہ جو صرف وجود کے «مفہوم» پر بھروسہ کرتے ہوئے اسکے اصلی مصداق پر جرح و بحث کرتی ہیں،ان دلائل کے مداف
سلامی توحید ،خدا کے سوا کسی اور مقصد کو قبول نہیں کرتی ہے، انسان کی ارتقائی حقیقت اور دنیا کی ارتقائی حقیقت «اس کی طرف»رخ کرنے کی حقیقت پر منحصر ہے ، ہر وہ چیز جس کا رخ اسکی جانب نہ ہو وہ باطل جھوٹی ہے اور تخلیق کے ارتقائی راستے کے منافی ہے۔
امام روح اللہ خمینی (رہ) اس دعا کے بارے میں لکھتے ہیں: دعائے ابو حمزہ ثمالی مظاہرِ عبودیت کا ایک اعلی نمونہ ہے اور اس طرح کی دعا ادب و عبودیت کی زبان سے خدا کی بارگاہ میں عرض کرنے کے لیے بشر کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔
سحر کی سب سے مشہور دعا وہ دعا ہے جسے امام علی ابن موسی الرضا (ع) نے امام محمد ابن علی الباقر (ع) سے نقل کیا ہے اور «سید بن طاووس» و «شیخ طوسی»نے ماہ رمضان کی سحر کے اعمال کے ضمن میں بیان کیا ہے۔
اس دعا کے راوی«محمد بن عثمان بن سعید»ہیں، جو امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے خاص نائبین میں سے ہیں۔ چونکہ اتنی اہم شخصیت نے اس دعا کی تلاوت ماہ رمضان کی راتوں میں خصوصیت کے ساتھ کی ہے اور پھر اس دعا کے عالی ترین مواد کو دیکھتے ہوئے علمائے کرام کا قوی احتمال یہ ہے کہ دعائے افتتاح امام عصر (ع) کی بارگاہ سے صادر یا دوسرے معصومین (ع) سے ان تک پہنچی ہے۔
پوری دنیا کے متدین لوگ چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں یا کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ہوں، اپنے بزرگوں اور رہنماوں کی قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے مقدس مقامات پر حاضر ہوتے ہیں ان سے تبرک حاصل کرتے ان کی روضوں کا چکر کاٹتے اور ان کا بوسہ لیتے ہیں۔ کیا یہ کام عبادت ہے؟
جیسا کہ ایمان کے مراتب ہیں شرک کے بھی مختلف مرتبے ہیں۔ ہم مسلمان اگر چہ شرک عظیم جس میں مشرکین اور دیگر ادیان کے ماننے والے گرفتار ہیں سے مبرا ہیں لیکن ہم میں سے بہت ساروں کے اندر شرک کے نچلے مراتب پائے جاتے ہیں!