اس دعا کے راوی«محمد بن عثمان بن سعید»ہیں، جو امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے خاص نائبین میں سے ہیں۔ چونکہ اتنی اہم شخصیت نے اس دعا کی تلاوت ماہ رمضان کی راتوں میں خصوصیت کے ساتھ کی ہے اور پھر اس دعا کے عالی ترین مواد کو دیکھتے ہوئے علمائے کرام کا قوی احتمال یہ ہے کہ دعائے افتتاح امام عصر (ع) کی بارگاہ سے صادر یا دوسرے معصومین (ع) سے ان تک پہنچی ہے۔
دعائے افتتاح ایک ایسی دعا ہے جو رمضان کے مقدس مہینے کی راتوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اس دعا کا ذکر«سید بن طاوؤس»، «شیخ طوسی»، «علامہ کفعمی» و «علامہ مجلسی» نے اپنی کتابوں میں کیا ہے،«شیخ عباس قمی» نے بھی اسے مفاتیح الجنان میں ماہ رمضان کی راتوں کی دعاؤں کے ضمن میں نقل کیا ہے۔
اس دعا کے راوی«محمد بن عثمان بن سعید»ہیں، جو امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے خاص نائبین میں سے ہیں۔ چونکہ اتنی اہم شخصیت نے اس دعا کی تلاوت ماہ رمضان کی راتوں میں خصوصیت کے ساتھ کی ہے اور پھر اس دعا کے عالی ترین مواد کو دیکھتے ہوئے علمائے کرام کا قوی احتمال یہ ہے کہ دعائے افتتاح امام عصر (ع) کی بارگاہ سے صادر یا دوسرے معصومین (ع) سے ان تک پہنچی ہے۔
*توحید کے جلوے
دعا کے آغاز ہی میں ، تعریف و شکر کی شکل میں " خدا کی ذاتی توحید " کا اقرار کیا جاتا ہے کہ اللہ"ایک اور یکتا" ہے، وہ "احد و واحد" ہے؛ اور اس کا کوئی "ساتھی" اور "بیوی، بچے" نہیں ہیں:
ــ الحَمدُ لِلهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَ لا وَلَداً وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيراً ــ تمام تعریف اللہ کے لئے ہیں جس کی نہ تو کوئی بیوی ہے اور نہ اولاد اور نہ اس کا سلطنت میں کوئی شریک ہے۔ اور [عاجز نہیں ہے چنانچہ] نہ تو اس کا کوئی یارو مددگار [یا سرپرست] ہے اور اس کی بڑائی کا اعتراف کیجئے جیسا بڑائی کا اعتراف کرنا چاہئے۔
ــ الحَمدُ لِلهِ الَّذِي لا مُضَادَّ لَهُ فِي مُلْكِهِ وَ لا مُنَازِعَ لَهُ فِي أَمْرِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لا شَرِيكَ لَهُ فِي خَلْقِهِ وَ لا شَبِيهَ [شِبْهَ ] لَهُ فِي عَظَمَتِهِ ــتمام تر تعریف اللہ کے لئے ہے جس کی مملکت اور بادشاہی میں اس کا کوئی مخالف نہیں اور اس کے امر میں اس کا کوئی منازع نہیں؛ تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس کی خلقت میں کوئی شریک نہیں اور اس کی عظمت میں کوئی اس کا شبیہ نہیں۔
اس کے بعد " خدا کی توحید افعالی " کا تذکرہ ملتا ہے کہ "پیدا کرنا" ، "روزی دینا"؛ "شب و روز کی تدبیر" اور "نعمت عطا کرنا" یہ سب کے سب کام اللہ کے ہیں نہ کہ کسی اور کے جیسا کہ مشرک لوگ سمجھتے ہیں۔
ــ الحَمدُ لِلهِ خَالِقِ الْخَلْقِ، بَاسِطِ الرِّزْقِ، فَالِقِ الْإِصْبَاحِ، ذِي الْجَلالِ وَ الْإِكْرَامِ وَ الْفَضْلِ [وَ التَّفَضُّلِ ] وَ الْإِنْعَامِ [الْإِحْسَان] ــ تمام تر تعریف اللہ کے لئے ہے جو خلائق کا خلق کرنے والا، رزق میں وسعت دینے والا، سپیدۂ سَحَر کا نمایاں کرنے والا، عظمت و بزرگی والا، اور فضل و احسان اور نعمتیں عطا کرنے والا ہے۔
ــ الحَمدُ لِلهِ الَّذِي لَيْسَ لَهُ مُنَازِعٌ يُعَادِلُهُ، وَ لا شَبِيهٌ يُشَاكِلُهُ، وَ لا ظَهِيرٌ يُعَاضِدُهُ، قَهَرَ بِعِزَّتِهِ الْأَعِزَّاءَ، وَ تَوَاضَعَ لِعَظَمَتِهِ الْعُظَمَاءُ، فَبَلَغَ بِقُدْرَتِهِ مَا يَشَاء ــتمام تر تعریف اللہ کے لئے ہے، جس کا کوئی مد مقابل نہیں ہے جو اس کی برابری کرے، اور اس کا کوئی شبیہ نہیں ہے جو اس کا ہم شکل ہو، [وہ کمزور نہیں ہے چنانچہ] نہ ہی اس کا کوئی پشت پناہ ہے جو اس کی مدد کرے؛ غالب ہوا اپنی عزت کے واسطے سے سارے عزت والوں پر، اور جھک گئے تمام بڑے اس کی بڑائی کے آگے، پس وہ اپنی قدرت سے جس چیز تک ـ چاہے ـ پہنچتا ہے۔
اور پھر ہم "خالقیت" ، "رازقیت" ، "ربوبیت" اور "خدا کے مبدا و معاد" ہونے کاعتراف کرتے ہیں۔ اور یہ کہ "نیکی اور بَھلائی صرف اس کے ہاتھ میں ہے"۔
ــ الحَمدُ لِلهِ الَّذِي يَخْلُقُ وَ لَمْ يُخْلَقْ؛ وَ يَرْزُقُ وَ لا يُرْزَقُ؛ وَ يُطْعِمُ وَ لا يُطْعَمُ؛ وَ يُمِيتُ الْأَحْيَاءَ وَ يُحْيِي الْمَوْتَى؛ وَ هُوَ حَيٌّ لا يَمُوتُ؛ بِيَدِهِ الْخَيْرُ؛ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِير ــتمام تر تعریف اللہ کے لئے جو خلق کرتا ہے اور اس کو خلق نہیں کیا جاتا، اور رزق دیتا ہے اور اس کو رزق نہیں دیا جاتا، اور "کھلاتا ہے اور اس کو کھلایا نہیں جاتا"، اور زندوں کو موت دیتا ہے اور "مردوں کو زندہ کرتا ہے" وہ ایسا زندہ ہے جس کو موت نہیں آتی، اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے "اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
امید ہے کہ دعائیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم ان کے معانی پر بھی توجہ دیں گےتاکہ جانیں کہ ہم کیا پڑھتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم پڑھتے ہیں اسے اپنے عقیدے اور عمل سے ملائیں۔
تحریر: سید لیاقت علی کاظمی الموسوی
Add new comment