قرآن کوئی فلسفے کی کتاب نہیں ہے اس کے باوجود اپنے نقطۂ نظر کو اس نے کائنات، انسان اور معاشرے کے بارے میں - جو کہ فلسفے کے تین بنیادی موضوع ہیں- کُھل کر اور قاطعانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ قرآن اپنے پیروکاروں کو صرف قانون تعلیم نہیں دیتا ہے اور نہ صرف وعظ و نصیحت کی ہی تعلیم دیتا ہے بلکہ اپنے پیروکاروں کے سامنے خلقت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے انھیں طرزِ تفکّر اور سوچنے کا ایک خاص طریقہ اور عالمی نظریہ بھی دیتا ہے۔ سماجی امور جیسے جائیداد، حکومت، خاندانی حقوق وغیرہ میں اسلامی احکام کی بنیاد وہ تفسیر و تشریح ہے کہ جو وہ خلقت و اشیاء کے بارے میں پیش کرتا ہے۔
قرآن کوئی فلسفے کی کتاب نہیں ہے اس کے باوجود اپنے نقطۂ نظر کو اس نے کائنات، انسان اور معاشرے کے بارے میں - جو کہ فلسفے کے تین بنیادی موضوع ہیں- کُھل کر اور قاطعانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ قرآن اپنے پیروکاروں کو صرف قانون تعلیم نہیں دیتا ہے اور نہ صرف وعظ و نصیحت کی ہی تعلیم دیتا ہے بلکہ اپنے پیروکاروں کے سامنے خلقت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے انھیں طرزِ تفکّر اور سوچنے کا ایک خاص طریقہ اور عالمی نظریہ بھی دیتا ہے۔ سماجی امور جیسے جائیداد، حکومت، خاندانی حقوق وغیرہ میں اسلامی احکام کی بنیاد وہ تفسیر و تشریح ہے کہ جو وہ خلقت و اشیاء کے بارے میں پیش کرتا ہے۔([1])
* دنیا کے تمام فلسفے چار بنیادی موضوعات سے باہر نہیں ہیں:
خدا، دنیا، انسان، معاشرہ..
قرآن مجید نے ان چاروں موضوعات پر بڑے ہی دلکش اور شیریں انداز میں گفتگو کی ہے۔([2])
بتدریج مختلف علوم اور فلسفہ میں قرآن کے اثرات کا بڑھانا
* ایسی کوئی صدی نہ تھی اور ایسا کوئی قَرْن نہیں گزرا کہ جس صدی اور جس قَرن میں اس مقدس کتاب پر دسیوں بلکہ سینکڑوں تفسیریں نہ لکھی گئی ہوں۔ یہ آمار و ارقام ان نِجی اور خصوصی موضوعات کے علاوہ ہے جن کا غیر تفسیری کتابوں میں ہمیشہ مطالعہ کیا جاتا رہا ہے اور اس پر تحقیق ہوتی رہی ہے ۔ بہر حال کسی بھی صورت میں، اگر آپ فقہ کا مطالعہ کرتے ہیں، تو آپ کو پوری فقہ میں قرآنی آیات کا ایک بڑا حصہ ضرور نظر آئے گا۔ اگر آپ اخلاقیات کا مطالعہ کریں تو تمام اخلاقی کتابیں جو لکھی گئی ہیں، ان کتابوں میں جابجا آپ کو قرآنی آیات نظر آئیں گی جن کا حوالہ دیا گیا ہے اور بطور دلیل انھیں پیش کیا گیا۔ اگر آپ حکمت الٰہی پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ صدرِ اسلام سے لے کر اب تک جو کچھ بھی گزرا ہےاور جو کچھ بھی حوادث و واقعات سامنے آئے ہیں انھیں دورہ بہ دورہ پر ہر دور میں قرآن نے حکمت الٰہی پر زیادہ اثر انداز ہوا ہے، یعنی اس نے اپنے لیے مزید جگہیں کھولی ہیں، جس کی خوداپنی ایک تاریخ ہے۔ علم کلام اپنی جگہ، عرفان اپنی جگہ، یہاں تک کہ شعر و شاعری اور ادب بھی صدی در صدی زیادہ سے زیادہ اسلام سے متاثر ہوتے رہے ہیں…
پھر آپ حساب کتاب لگائیں،ان تمام مختلف شعبوں اور مختلف میدانوں میں آپ دیکھیں گے کہ جس قدر اور جتنا بھی کسی بھی فن سے تعلق رکھنے والے کسی بھی اہل فن کی معلومات میں جتنا بھی اضافہ ہوا ہے قرآن کے معانی اتنے ہی بہتر طریقے اور اچھے ڈھنگ سے بیان کیے گئے ہیں اور اسے اتنا ہی بہتر طریقے سے قرآن کے معانی و مفاہیم کو کشف اور انھیں سمجھا گیا ہے۔ ([3])
قرآن اور توحید پر استدلال
*قرآن خود بھی دلیل پیش کرتا ہے اور مدِّ مقابل سے بھی دلیل و ثبوت مانگتا ہے۔
توحید پر قرآن کی دلیل:
- تخلیق پر غور و فکر جس کے لیے علمی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
- توحید کا اثبات برہانِ تمانع کے ذریعے۔
- کائنات کے واحد ہدف کے ذریعے توحید کا اثبات۔
- ہدایت کے راستے اور اس نور کے ذریعے توحید کا اثبات جو ہر موجود میں وجود رکھتا ہے۔
- خدا کی طرف سے خود اپنے آپ پر دلیل قائم کرنا:﴿اَوَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ﴾([4])۔
- فطرت کے راستے:﴿اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١﴾([5])۔([6])
*قرآن اپنے بیانات میں عقلی طریقے استعمال کرتا ہے، کیونکہ وہ سب سےپہلے بہت سی چیزوں کو عقلی دلیل سے ثابت کرتا ہے، جیسے توحید یا قیامت یا نبوت کو ثابت کرنے کے لیے یا مخالفین کے دلائل کی تردید کے لیے عقلی دلائل ہی پیش کرتا ہے۔([7])
قرآن اور اسباب و عِلیّت
*قرآن اور کائنات۔
قرآن باوجود اس کے کہ ہر ایک چیز کو خدا کے دست قدرت میں اور سب کچھ خدا کے ہاتھ میں اور خدا کی مرضی کے تابع مانتا ہے اسباب و علل کے تعلق کو-چاہے وہ مادّی ہوں یا غیر مادّی- تسلیم اور ان کی تصدیق کیا ہے۔
مادّی علل و اسباب کے بارے میں مثلاً ارشاد ہے:﴿فَيُحْيٖ بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١﴾([8])۔بادلوں کے تعلق سے ارشاد ہے:﴿اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ﴾([9])۔ درختوں، پودوں اور سمندروں کا ذکر بطور نعمت کرتا ہے، یعنی وہ اسباب جنھیں اللہ ٰ نے انسانوں کو عطا کیے ہیں۔
جہاں تک معنوی روحانی اسباب و علل کا تعلق ہے تو فرشتوں کو رسول ماننا ہی کافی ہے...جنھیں قرآن﴿فَالْمُقَسِّمٰتِ۠ اَمْرًا﴾([10]) اور ﴿فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًا﴾([11]) کے نام سے یاد کرتا ہے۔([12])
...........................
منابع
([1]) نظام حقوق زن در اسلام، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 19، ص 131۔
([2]) یادداشتھای شہید مطہری، ج8، ص 425۔
([3]) خاتمیت، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 29، ص 601۔
([4]) فصلت (41): 53۔
([5]) ابراہیم (14): 10۔
([6]) یادداشتھای شہید مطہری، ج8، ص 408۔
([7]) یادداشتھای شہید مطہری، ج8، ص 411۔
([8]) روم (30): 24۔
([9]) اعراف (7): 57۔
([10]) ذاریات (51): 4۔
([11]) نازعات (79): 5۔
([12]) یادداشتھای شہید مطہری، ج8، ص 377۔
Add new comment