سحر کی سب سے مشہور دعا وہ دعا ہے جسے امام علی ابن موسی الرضا (ع) نے امام محمد ابن علی الباقر (ع) سے نقل کیا ہے اور «سید بن طاووس» و «شیخ طوسی»نے ماہ رمضان کی سحر کے اعمال کے ضمن میں بیان کیا ہے۔
اس دعا کو "دعائے بہاء" بھی کہا جاتا ہےاور شیخ عباس قمّی نے اسے ماہ رمضان کے مقدس مہینے کی سحر کے اعمال کے سلسلے میں مفاتیح الجنان میں نقل کیا ہے۔
دعائے سحر میں توحید ، الہیات ، معرفت ربوبی، اسماء حسنیٰ اور صفات الٰہی کے عالی ترین مقامات و منازل کا تذکرہ ملتا ہے،ایسی بلند پایہ مضامین پر مشتمل دعا کی شرح کے لیے الٰہی و عرفانی شرح درکار اسی لیے صرف متاَلہ عرفاء و حکماء ہی جیسے «امام روح الله خمینی»، «علامہ سیّد ابوالحسن رفیعی قزوینی» و «میرزا حبیب الله شریف کاشانی»اس پُرخطروادی میں داخل ہوسکے ہیں۔
لہذا ، صرف ان مقدس کلمات سے برکت پانے کے لیے آج کی رات میں اس دعا کے تین حصوں کا ذکر کرینگے جو ہماری گذشتہ راتوں کے مندرجات سے متعلق ہیں:
توحید افعالی
ــ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ مَشِيَّتِكَ بِأَمضَاهَا وَ كُلُّ مَشِيَّتِكَ مَاضِيَةٌ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَشِيَّتِكَ كُلِّها ــاے معبود! تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری مرضی اور ارادے کے نافذ ترین مرتبے کے واسطے، اور تیرے ارادے کے تمام مراتب نافذ ہیں، اے معبود! تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے ارادے کے تمام مراتب کے واسطے۔
ان جملوں سے "توحیدِ افعالی" کے مفاہیم سامنے آتے ہیں کہ خدا کی مرضی اور اس کا اردہ تمام اردوں سے بلند و بالا و برتر و اعلیٰ وبالاتر ہے اور یہاں تک کہ کوئی خواہش و مرضی ایسی نہیں ہے جس پر تک خدا کی مرضی اثر انداز نہ ہو۔
امام خمینی (رہ) نے دعائے سحر کےاس جملے کےذیل میں لکھا ہےکہ: یہ کاغذ کہ جس پر میں لکھ رہا ہوں ، اور جس قلم سے میں لکھ رہا ہوں ، اور جس ہاتھ کی طاقت نے اس کاغذ اور قلم کو محکوم کرلیا ہے ، اور جس قوت کی وجہ سےہاتھوں میں طاقت ہے ، اور وہ اردہ جو جوش و جذبہ سے پیدا ہوا ہے ، اوروہ جوش و جذبہ جو علم سے پیدا ہوا ہے ، اور وہ علم جو انسانی روح پر مبنی ہے ، وہ سب خدا کی عطا اور اس کے ظہور سے ہے ، اور یہ سارے واسطےاعتباری اور خیالی ہیں۔
توحید صفاتی
ــ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ قُدرَتِكَ بِالْقُدرَةِ الَّتِي اسْتَطَلْتَ بِهَا عَلَى كُلِّ شَيءٍ وَ كُلُّ قُدْرَتِكَ مُستَطِيلَةٌ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِقُدْرَتِكَ كُلِّها ــاے معبود! تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری قدرت کے واسطے جس کے ذریعے تو ہر شیئے پر مسلط ہے، اور تیری تیری قدرت کے تمام مراتب تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، اے معبود! تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری قدرت کے تمام مراتب کے واسطے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ خدا قادر مطلق ہے اور یہ کہ اس کی قدرت تمام موجودات پر احاطہ کیے ہوئے ہے ، تواس میں اس کی تمام صفات شامل ہیں۔ یہ وہی " توحیدِ صفاتی" ہے جو خدائےتعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے اور اس کی صفات کے مابین کوئی امتیاز نہیں ہےجن میں قدرت ، علم ، سمع ، وغیرہ شامل ہیں۔ اور یہ ساری صفات ایک ہی سچائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو کہ خدا کی ذات ہے۔دوسرے لفظوں میں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم خدا کی ذات کو اس کی کن صفات اور ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ: "لَمْ یَزَلِ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ رَبَّنَا وَ الْعِلْمُ ذَاتُهُ وَ لَا مَعْلُومَ وَ السَّمْعُ ذَاتُهُ وَ لَا مَسمُوعَ وَ البَصَرُ ذَاتُهُ وَ لَا مُبصَرَ وَ القُدْرَةُ ذَاتُهُ وَ لَا مَقدُور... ــ
اللہ ازل سے ہی ہمارا پروردگار تھا؛اور علم اسکی ذآت تھا جبکہ کوئی معلوم نہیں تھا؛سماعت اسکی ذات تھی جبکہ سنے جانے کا تصور بھی نہیں تھا،بینائی اس کی ذات تھی جبکہ دیکھے جانے کا کوئی تصور نہیں تھا،قدرت اس کی ذات تھی جبکہ کسی مقدور کا وجود نہ تھا۔ ( الکافی ، جلد 1 ، صفحہ 107)
توحید ذاتی
ــ اللَّهُمَّ إِنِّي أسأَلُكَ بِمَا أَنتَ فِيهِ مِنَ الشَّأنِ وَ الْجَبَرُوتِ وَ أسْأَلُكَ بِكُلِّ شَأْنٍ وَحدَهُ وَ جَبَرُوتٍ وَحدَها ــاے معبود، اور تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری جاہ و عظمت کے تمام مراتب میں الگ الگ مرتبے کے واسطے، اور تیری عظمت اور جبروت کے تمام مراتب میں، الگ الگ مرتبے کے واسطے۔
یہ جملے ، جو دعائے سحر کے آخری جملے ہیں ، اسے" توحید ذاتی" کے مظاہر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ: خدا کی ذات یگانہ و یکتا ہے؛ کوئی اس کا مثل و مانند نہیں ہے؛ سب کچھ اس کی تخلیق ہے؛اس کے مدّمقابل کوئی کچھ بھی نہیں اور کوئی بھی اس کے ساتھ موازنہ نہیں کرسکتا اور کوئی بھی اس کی شان و جبروت کے برابر نہیں ہے۔
تحریر: سید لیاقت علی کاظمی الموسوی
Add new comment