خدا کے وجود کو ثابت کرنے والے براہین؛برہان وجودی

Tue, 06/01/2021 - 06:28
خدا کے وجود کو ثابت کرنے والے براہین؛برہان وجودی

ایک منطقی تقسیم کی بنیاد پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے والی دلیلوں[1]، کو تین حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے:الف)  وہ دلیلیں  کہ جو صرف وجود کے  «مفہوم»  پر بھروسہ کرتے ہوئے اسکے اصلی مصداق پر جرح و بحث کرتی ہیں،ان دلائل کے مدافعین اپنی بحث کے آغاز میں ہی خدا کے وجود کی مکمل (کہ خدا ایک کامل ترین موجود ہے) پہچان ظاہر کردیتے ہیں ؛اور پھر اسکے بعد اسکے مفاہیم و مراد کا تجزیہ کرتے ہوئے اسکے خارجی مصداق کے بارے میں نتیجہ پیش کردیتے ہیں،سوائے خدا کے لفظ کے کوئی دوسرا ایسا لفظ نہیں ملتا جس کے بارے میں یہ دعوا کیا جاسکتا ہوکہ اسکی تعریف اور اسکے مفہوم کو بیان کرکے اسکے مصداق کی تشخیص دے دی جائے۔ب) کچھ ایسی بھی دلیلیں ہیں کہ جووجود(يا مطلق وجود)  کے «کسی نامشخص مصداق » کو خداکے وجود کے اثبات کا ذریعہ قرار دیتی ہیں،جو لوگ اس طرح کی دلیلوں کو کام میں لاتے ہیں اور اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے ایسی دلیلوں کا استعمال کرتے ہیں انکا کہنا ہے کہ وجود خدا کو ثابت کرنے کے لیے سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ ہم سوفسطائیوں کی طرح نہ ہوجائیں اسی لیے سب سے پہلے کائینات  میں کسی «موجود » کے وجود کو میں مان لیں،چونکہ اس استدلال میں کسی بھی معین موجود کے وجود کو تسلیم نہیں کیاجاتااس لیے اس استدلال کے آخری نتیجہ کے طور پر یہ مان لیا جاتا ہے کہ وہ چیز جس کے وجود کو ہم نے بحث کے شروع میں مفروضہ طور پر مانا تھا درحقیقت وہی خدا ہے، یہاں پر یہ کہا جاسکتا ہے ہم نے اس استدلال میں خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے غیر خدا سے مدد نہیں لی ہے۔ج) کچھ ایسے بھی دلائل و براہین ہیں جن میں خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وجود کے «معین مصداق» – جیسے وجود حادث يا ممکن –  کا استعمال کیا جاتا ہے؛ اس معین مصداق کو لازمی طور پر «غیر خدا »ہونا چاہیئے؛کیونکہ وہ استدلال جو خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال میں لایا جائے اگر اس میں خود وجود خدا کو ہی تسلیم کرلیا جائے تو ایسا استدلال سوائے مصادرہ در مطلوب کے کچھ اور نہ ہوگا جو کہ باطل اور صحیح نہیں ہے کہ آپ کسی چیز سے خود اسی چیز کو ثابت کرنے لگیں۔
مغربی دنیا میں، ان تینوں قسموں میں سے پہلی قسم کو برہان وجودی کے نام سے جانا جاتا ہے؛ اگرچہ ، اس قسم کے دلائل کو مغربی ممالک کے افراد سے ہی  منسوب نہیں سمجھا جاسکتا، دوسری قسم – کہ جو غالباً اسلامی دانشور اور مفکرین سے منسوب ہے – برہان صديقين کہی جاتی ہے، تیسری قسم ، مختلف دلائل پر مشتمل ہے کہ جس  کے بعض انواع و اقسام کا ذکر ہم برہان وجودی اور برہان صدیقین کے بیان کے بعد کریں گے۔
سینٹ انسلم (ح1033 – 1109 م) کینٹربری کے چرچ کے آرچ بشپ، نے اپنی کتاب پروسلوگيوم[1]،کے دوسرے حصہ سے لے کر چوتھے حصہ تک خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ایک ایسی دلیل کو پیش کیا ہے جو برہان وجودی کے نام سے مشہور ہوئی؛اس برہان کی آسان سی وضاحت کچھ یوں ہے:
الف) بلا شبہ خدا کے وجود کے منکر افراد اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ وہ اپنے ذہن میں اس مفہوم کا تصور کریں: «ایک ایسا موجود جس سے بڑا[2]، کوئی موجود قابل تصور نہ ہو»۔
ب) اس طرح، خدا کے منکروں  کا دعوی یہ ہے کہ دماغ میں جو تصور کیا گیا ہے وہ دماغ کے باہر موجود نہیں ہے۔
ج)یہ بات مسلّم ہے کہ وہ چیز جو« ذہن میں بھی اور ذہن کے باہر بھی » موجود ہےاس موجود سے کامل تر اور مکمل ہے جو « صرف ذہن میں » موجود ہے[3]۔
د)اس بنیاد پر وہ چیز جسے منکرِ وجود خدا نے تصور کیا ہے وہ « قابل تصورموجود ،کاملترین »  بھی ہے(مقدمۂ الف)  اور نہیں بھی(مقدمۂ ب اور ج)جبکہ یہ واضح اور آشکار تناقض  اور تضادہے جوکہ باطل ہے۔
نتیجہ: مندرجہ بالا   ذکر کردہ تضاد سے بچنے کے لیے، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ خدا ذہن کے باہر بھی موجود ہے۔
دوسرے الفاظ میں، اگر  «کسی ایسے موجود کو تصور کیا جائے کہ جس سے بڑا اور کامل موجود کوئی دوسرا قابل تصور نہ ہو»  اور ہم اسے Xکا نام دے لیں تو اس طرح قیاس استثنائی کی ایک شکل و صورت مندرجہ ذیل طریقہ سے ترتیب دی جاسکتی ہے:
اگر «X» ذہن سے باہر موجود نہ ہو، اس وقت «X» «X» نہیں ہے۔
لیکن «X» «X» موجود ہے۔
اس بنیاد پر «X» ذہن سے باہر بھی موجود ہے۔
بعض مسلم دانشورنے بھی – انسلم کی طرح – کوشش کی ہے کہ وجود کے مفہوم کو محور بناتے ہوئے اسکے اصلی مصداق(خدا) کےوجودکو ثابت کریں؛جیسا کہ آٹھویں ہجری کے عرفاء میں سے ایک جن کا نام  ابوحامد اصفہانی تھا انہوں نے اپنی کتاب قواعد التوحيد[4]،میں لکھا ہےکہ:وجود کی اصل حقیقت – اس لحاظ سے کہ وجود ہی در اصل حقیقت ہے –ذاتی طور پر کسی بھی طور عدم اور نہ ہونے کو قبول نہیں کرتی؛کیونکہ وجود اور عدم میں سے ہر ایک اپنے نقیض کو اپنے سامنے ٹِکنے نہیں دیگا اور کسی ایک کا بھی وجو دوسرے کے وجود سے ختم نہیں ہوگا، اس بنا پر چونکہ وجود کی اصلیت ذاتی طور پر کسی بھی طرح عدم کے وجود کو قبول نہیں کرتا اس لیے وجود کی موجودگی ذاتی طور پر واجب ہے[5]۔
انسلم  کے ہم عصرراہبوں میں سے ایک، جس کا نام گونیلو، تھا اس نے انسلم   کو چیلنج کرتے ہوئے برہان وجودی پر ایک نقضی اشکال وارد کیا ہے[6]،اسکے مطابق، اگر اس طرح کے برہان کودرست مان لیا جائے تو اس برہان کا استعمال کرتے ہوئے  کسی بھی موہوم اور پوشیدہ چیز کے وجود کو ثابت کیا جاسکتا ہے! مثال کے طور پر، آپ اس ذہنی مفہوم  کے تصور پر غور کریں: «ایک ایسے جزیرہ کا تصور کریں کہ جس سے بڑا کوئی جزیرہ قابل تصور  نہ ہو» کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ انہیں مقدمات کا استعمال کرتے ہوئے جن کا انسلم   نے اپنے برہان میں  استعمال کیا ہے اس جزیرے کے وجود کو بھی ثابت کردیا جائے[7]؟
اس کے علاوہ، برہان وجودی کو دیگر مشرقی  اور مغربی  دانشوروں کی طرف سے بھی اشکالات اوراعتراضات کا سامنا کرنا پڑا ہے[8]، ان میں سے ایک  اعتراض جو برہان وجودی کے تمام موجودہ ثبوتوں کو غلط ٹھہراتا اور اسکی خامیوں کو آشکار کرتا نظر آتا ہے  وہ یہ ہے کہ اس طرح کے برہان میں «مفہوم» اور «مصداق» کو آپس میں ملا دیا گیا ہےاور ایک دوسرے کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی گئی ہے،مزید وضاحت کے لیے بہتر ہے کہ دو اصطلاحات «حمل ذاتئ اولی» اور «حمل شايع صناعی» کو پیش کیا جائے[9]۔
جب کبھی کسی محمول کو کسی موضوع پر ڈالا جاتا ہے تو کبھی ان دونوں کے مفاہیم کو ایک مانا جاتا ہے اور کبھی ان دونوں کے مصداق کو  نظر میں رکھا جاتا ہے پہلی قسم کو «حمل ذاتئ اولی» اور دوسری قسم کو «حمل شايع صناعی»کا نام دیتے ہیں،ان اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے مسلم فلاسفر اور منطق داں، قضیوں کے درمیان پائے جانے والے جیسے«جزئی جزئی ہے» اور «جزئی کلی ہے» کے ظاہری تناقض اور تضاد  کو برطرف کرتے ہیں، اس بنیاد پر اگر  مفہوم  کا اتحاد اور حمل ذاتی مراد ہو تو  جزئی، جزء جزئی  نہیں ہوسکتا؛اور حمل شائع کی بنا پر بھی جزئی ، کلی کے مصادیق میں شمار ہوگی؛کیونکہ «جزئی» کا مفہوم بہت سارے امور پر قابل انطباق ہے جیسے یہ کتاب، وہ کاپی وغیرہ[10]۔
گزشتہ مباحث کو مد نظر رکھتے ہوئے ،اور وجود خدا کے منکر افراد کے  اس  دعوے کو کہ«واجب‌الوجود معدوم ہے»کا جواب اس طرح کی باتوں سے نہیں دیا جاسکتا کہ: «وجود لازمی طور پر موجود ہے»اگرچہ کہ یہ بات صحیہح ہے کہ حمل ذاتئ اولی کی بنیاد پر ہر چیز خود اپنے ہی ہی اوپر حمل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہےاور ہر هر «الف»ي ضرورتاً هر «الف» ہے،لیکن اس اتحاد مفہومی کے ذریعہ – کہ جس کا مقام عالم ذہن ہے –ممکن نہیں کہ موضوع اور محمول کے توسط سے کسی خارجی مصداق پر حکم جاری کردیا جائے، یہاں تک کہ محال امور کے سلسلہ میں بھی – کہ جس کا کوئی مصداق ذہن سے باہر موجود نہیں ہوتا– حمل ذاتئ اولی کے ذریعہ ایک صادق قضیہ کا استخراج کرسکتے ہیں جیسے: «پیچ کس کا دائرہ، لازمی طور پر پیچ کس کا دائرہ ہے»۔
انسلم کے اس برہان پر کس طرح سے اعتراض وارد ہوتا ہے اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، وہ خدا کی کچھ یوں تعریف بیان کرتا ہے: : «ایک ایسا موجود کہ اس سے کامل تر کوئی موجود قابل تصور نہیں ہے» انسلم     کی بیان کردہ وضاحت کی بنیاد پر کامل تر ہونے کی لازمی شرط وجود خارجی سے آراستہ ہونا بھی ہے، اس بنیاد پر انسلم     کے منظور و مقصود اور مدعا کو کچھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: «وہ چیز جو سارے کمالات (من جملہ ذہن سے باہرکا وجود)  کی مالک ہے وہ لازمی طور پر ذہن سے باہر بھی موجود ہے »اور وہ توضیحات جو گزرچکی اس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس سے مراد حمل ذاتئ اولی ہو تو یہ مدعا درست مانا جائے گا؛لیکن اس سے خدا کے وجود خارجی کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، ایک دوسری طرح سے اگر اسے بیان کیا جائے تو[11]،گزشتہ جس قیاس استثنائی کا ہم نے ذکر کیا تھااسکی بنا پر اگر اس سے مراد حمل اولی ہوتو پہلا والا مقدمہ درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ چاہے «X»  ذہن کے باہر موجود ہو یا موجود نہ ہو«X» «X» ہی رہے گا، لیکن اگر یہاں حمل شائع کو مراد لے لیا جائے تو دوسرا والا مقدمہ بے فائدہ ہوجائے گا؛کیونکہ ایسی صورت میں یہ مقدمہ نہ صرف یہ کہ ایک بدیہی اور روشن  چیز بن جائے گی بلکہ وہی مطلوبہ چیز بن جائے گی جسے ثابت کرنا مقصود ہے۔
گزشتہ اعتراض(مفہوم اور مصداق کے درمیان خلط)کو اصطلاحِ«تحلیلی» – کہ جس کے اختراع کرنے والے میں کانٹ کا شمار ہوتا ہے –کے ذریعہ بھی واضح کیا جاسکتا ہے[12]، قضیۂ تحلیلی سے مراد (ترکيبی کے بالمقابل)ایک ایسا قضیہ ہے کہ جس کا محمول موضوع کی تحلیل کے بعد سامنے آئے؛ مثال کے طور پر: «ہرایک شوہر مرد ہے» اور «ہر ایک مثلث میں تین زاویہ ہوتے ہیں »گویا برہان وجودی کے حامیوں نے یہ خیال کیا ہے کہ خدا کے وجود کا انکا ر  اس طرح کے تحلیلی قضیہ «کامل ترین موجود جو قابل تصور ہو وہ موجود ہوتا ہے» کے ساتھ سازگار نہیں ہے؛جیسا کہ ڈکارٹ کے نظریہ کے مطابق«ایک ایسے خدا کا تصور (یعنی ایک ایسی ذات  کہ جو کامل اور مطلق ہو)  اسکا تصور کچھ اس طرح کیا جائے کہ وہ   فاقد ِوجود ہو اور وجود نہ رکھتا ہو (يعنی فاقد کمال)ہو، یہ تصور اسی قدر ذہن سے دور  ہے جتنا یہ سوچا جائے کہ کسی پہاڑ کو بغیر کسی درّہ [اور کسی مثلث کو بغیر زاویہ]  کے تصور کیا جائے»[13]، اسکے جواب میں کانٹ کا کہنا ہے کہ:مثلث کے وجود کو پوری طرح سے تسلیم کرنے کے باوجود ساتھ ہی اگر اس بات کا انکار کیا جائے کے وہ تین زاویہ نہیں رکھتاتو اسے تضاد اور تناقض لازم آئے گا، لیکن اگر مثلث کے وجو[د خارجی ] اور اسکے سہ ضلعی ہونے کا ایک ساتھ انکار کردیا جائے تو اس میں کسی طرح کا کوئی تناقض پیش نہیں آئے گا، اور یہیں بات «وجود مطلقاً واجب» ہے کے مفہوم کے سلسلے میں بھی صادق آتی ہے[14]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و ماخذ

[1]۔ Proslogium۔ اسکے معنی غالباً <خطابه> کے ہیں؛ لیکن بهتر ہے کہ اس رساله کو ـ  جوکہ انسلم کی ایک دوسری کتاب <حديث با نفس / Monologium> کے نام سے موسوم ہے ـ <حديث با غير> نام دیا جائے۔ یہ دونوں کتابیں انگلش زبان میں مندرجہ ذیل منبع میں چاپ ہوئی ہیں:

Anselm, Basic Writings, trans۔ By S۔ N۔ Deane, pp 47 ـ 190۔

[2]۔ البتّه  انسلم نےغالباً <بزرگ‌تر> کی تعبیر کا استعمال کیا ہے ؛ لیکن واضح ہے کہ <بزرگ‌تر> سے مراد <کامل‌تر> ہی ہے۔ رجوع فرمائیں: جان هيک، <برهان وجودي>،: خدا   فلسفه، میں، ترجمه بهاءالدين خرمشاهي، ص43۔

[3]۔  انسلم کے بیان سے برهان وجودي  کی ایک دوسری وضاحت بھی استخراج کی گئی ہےکہ جسکا اصلي رکن جوکہ ـ اس مقدمہ کا جایگزین ہے ـ کچھ اس طرح ہے: <ایسا موجود کہ جسکا  عدم ممکن نہ ہو، وہ اس موجود سے کامل تر ہوتا ہے جو موجود عدم کو قبول کرتا ہو >۔ رجوع فرمائیں: نورمن مالکولم، <براهين وجودشناختي  انسلم>،: جان هيک (ایڈیٹر)، اثبات وجود خداوند، ترجمه عبدالرحيم گواهي، ص65۔

[4]۔ کتاب قواعد التوحيد، کے مؤلف کے پوتوں میں سے جنکا نام صائن ‌الدين علي بن محمد (متوفی 830 / 836 ق) ہے اس کتاب ایک شرح تحریر فرمائی ہےاور اسکا نام  تمهيد القواعد رکھا ہے،یہ شرح ـ که جو  سي کتاب میں  شمار ہوتی ہے ـ خودبہت سارے حواشي و شروح سے مزین ہوئی ہے۔

[5]۔ صائن‌الدين علي بن محمد ترکه، تمهيد القواعد، ص59، 60۔

[6]۔ See: Gaunilo, “In Behalf of the Fool” in: Anselm, Basic Writings, trans۔ By S۔ N۔ Deane, pp 308 ـ 309۔

[7]۔ کچھ لوگ جیسے خود  انسلم نے کوشش کی ہے کہ اس اعتراض کا جواب پیدا کریں ۔ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لیے، رجوع فرمائیں: جان هيک (ایڈیٹر)، اثبات وجود خداوند، ترجمه عبدالرحيم گواهي، ص35 ـ 37؛ مائکل پیٹرسن اور دوسرے، گزشتہ حوالہ، ص136، 137۔

[8]۔ بطور  نمونه، رجوع فرمائیں: جان هيک (ایڈیٹر)، گزشتہ حوالہ، ص51 ـ 59 (کانٹ کا ایک بیان عقل محض کی نقد میں)؛ جان هاسپرس،  درآمدي بر تحليل فلسفي، ترجمه موسي اکرمي، ص487 ـ 490؛ عبدالله جوادي آملي، تبيين براهين اثبات خدا، ص194 ـ 207؛ مصطفي ملکيان، مسائل جديد کلامي (جزوه  سي)، ص88 ـ 107۔

[9]۔ کاوش‌هاي عقل نظري،نامی کتاب کا مصنف وہ پہلا شخص ہے جس نے پہلی باران دو اصطلاحوں کا ذکر برهان وجودي کی تحلیل کے وقت استعمال کیا ہے ۔ رجوع فرمائیں: مهدي حائري يزدي، کاوش‌هاي عقل نظري، ص173 ـ 176۔

[10]۔ محمدحسين طباطبائی، نهاية الحکمة، تصحيح و تعليق غلامرضا فياضي، ج1، ص106 ـ 108 (اس  قسم کے حمل کےسلسلہ میں مزید مطالعه کے لیے <فرهنگ اصطلاحات و اعلام> کی جانب  مراجعهفرمائیں)۔

[11]۔ رجوع فرمائیں: مصطفي ملکيان، مسائل جديد کلامي (جزوه  سي)، ص107۔

[12]۔ بعض مفکرین نے  قضايائے تحليلي اور ترکيبي کو ـ بالترتيب ـ ان  قضايا کے ساتھ  کہ جس میں حمل، اولي ذاتي اور شائع صناعي ہے، برابر جانا ہے (رجوع فرمائیں: مهدي حائري يزدي، کاوش‌هاي عقل نظري، ص208)۔ جب کہ ان اصطلاحات کوصد   صد ایک دوسرے کا معادل نہیں سمجھا جاسکتا ؛ اس طرح کا قضیہ کہ <اجتماع نقيضين محال ہے>یہ ایک  قضيۂ تحليلي ہے اور ساتھ ہی اسکامحمول ،حمل شائع  کی بنا پر موضوع کی طرف بھی پلٹ رہا ہے۔

[13]۔ رنے ڈکارٹ، تأملات، ترجمه احمد احمدي، ص86 (تأمل پنجم)۔

[14]۔ جان هيک، فلسفه دين، ترجمه بهزاد سالکي، ص48۔ اسی طرح، رجوع فرمائیں: لئون مينار، شناسايي و هستي، ترجمه علي‌مراد داوودي، ص380۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39