توحید کے معنی اور خالص توحید

Tue, 06/01/2021 - 03:50

سلامی توحید ،خدا کے سوا کسی اور مقصد کو قبول نہیں کرتی ہے، انسان کی ارتقائی حقیقت اور دنیا کی ارتقائی حقیقت «اس کی طرف»رخ کرنے کی حقیقت پر منحصر ہے ، ہر وہ چیز جس کا رخ اسکی جانب نہ ہو وہ باطل جھوٹی ہے اور تخلیق کے ارتقائی راستے کے منافی ہے۔

توحید کے معنی اور خالص توحید

بنیادی طور پر ، توحید کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس مسبب الاسباب اور اس علت العلل اور اس جوہر کو [ذہن میں رکھے] جسکے ہاتھوں میں امیرالمؤمنینؑ کے بیان کے مطابق -کہ جو بہت ہی عمدہ اور لطیف تعبیر ہے-تمام امور کی باگ ڈور ہے:« عِلْماً بِأَنَّ أَزِمَّةَ الْأُمُورِ بِيَدِكَ»،«تمام امور کی باگ ڈور اور حکمرانی اسکے ہاتھوں میں ہے»یعنی کائنات کے سارے دھارے ، وجوہات اور اثرات کا نظام ،نظام ِاسباب و مسبّبات ، اپنا اپناکام کرتے ہیں،لیکن یہ سب ایک کارواں کی طرح ہیں ، جس کا کنٹرول ایک شخص کے ہاتھ میں ہے ...
ان سب چیزوں کا جو ہم نے ذکر کیا ہے یہ سب تکوینی اسباب کے ایک سلسلے تھے،ساتھ ہی معاشرتی اسباب کے بھی سلسلے ہیں جو انسان کو مشرک بھی بناتے ہیں، یعنی یہ معاشرتی اسباب سبب بنتے ہیں کہ انسان خدا کو نظرانداز کرتا ہے اور پھر انسان کا سارا بھروسہ اور اعتماد اور اسکی تکیہ گاہ وہی معاشرتی اسباب بن جاتے ہیں،وہ اسباب کیا ہیں؟ جب کسی شخص کو دنیا میں بہت سے مددگار اور دوست مل جاتے ہیں ، قرآن کے مطابق ، جو لوگ دنیا میں جُند اور اپنے سپاہی ڈھونڈلیتے ہیں، تو ان پر غرور کی کیفیت طاری ہوجاتی ہےور کہتے ہیں کہ یہی ہماری تکیہ گاہ ہیں ان کے رہتے میرا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے؟یہ بھی انسان کی ایک مغرورانہ کیفیت ہے، کیا فوج اور فوجی انسان کو خدا سے بے نیاز بنا سکتے ہیں؟یہ آزمائش کا ایک ذریعہ ہے اور یہ وہی سامانِ سفرہے جو بدقسمت شخص کو چند صبح کے غرور کے دہانے تک پہنچاتا ہے اور بدبختی اور تباہی کا باعث ہوتا ہے، اگر خدا کا اردہ  کچھ اور ہو تو کیا ان لشکریوں سے کچھ بن پڑے گا؟﴿اَمَّنْ هٰذَا الَّذِيْ هُوَ جُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ١﴾[1]کیا یہ جو تمہاری فوج بنا ہوا ہے،جسے تم اپنی فوج مانتے ہوکہ خدا کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہے اور تمہاری فریاد کو آسکتا ہے؟ یہ بس دھوکہ ہے اور فریب۔[2]
*اگر انسان کے پاس خدا ہے تو اس کے پاس سب کچھ ہے؛ اگر اس کے پاس خدا نہیں ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔[3]
توحید اور بلندی
*
توحید کا تقاضہ ہے کہ بلندیوں کو عبور کرنے کے لئے روحانی طور پر تیار میدان موجود ہو، توحید روح کی بلندی  کی ایک لازمی شرط ہے؛ توحید روح کو بلند کرنا چاہتی ہے اور اسے زندگی اور تخلیق کے اہداف کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے ، اور اسی وجہ سے قرآن مجید میں جگہ جگہ، قابلیت ، پاکیزگی اور صلاحیت کی بات کی گئی ہے؛ ارشاد ہے:﴿ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ﴾[4]یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے،﴿لِّيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا﴾[5] قرآن اس لیے ہےتاکہ آپ اس کے ذریعہ زندہ افراد کو عذاب الہٰی سے ڈرائیں ۔[6]
خالص اور پاک توحید
*
اسلامی توحید ،خدا کے سوا کسی اور مقصد کو قبول نہیں کرتی ہے، انسان کی ارتقائی حقیقت اور دنیا کی ارتقائی حقیقت «اس کی طرف»رخ کرنے کی حقیقت پر منحصر ہے ، ہر وہ چیز جس کا رخ اسکی جانب نہ ہو وہ باطل جھوٹی ہے اور تخلیق کے ارتقائی راستے کے منافی ہے۔[7]
*بس اپنے ہی لیے کام کرتے رہنا  نفس پرستی ہے ، صرف لوگوں کے لیےکام کرنا ،بت پرستی ہے،خدا کے لیے بھی اور مخلوقات کے لیے بھی کام کرنا شرک اور دوگانہ پرستی ہے،اپنا بھی کام اور مخلوقات کا بھی کام صرف خدا کی رضا کے لیے انجام دینا توحید اور خدا پرستی ہے۔[8]
شرک اور مخلوقات کا مؤثر کردار
*
کیا کسی چیز کے تأثیر و تأثر اور سبب و مسبّبیّت اور اثر و رسوخ میں مخلوق کے کردار پر اعتقاد رکھناشرک  ہے(خالقیت اور فاعلیت میں شرک)؟ اور کیا توحید افعالی  کا تقاضہ یہ ہے کہ نظامِ اسباب و مسبّبات کی تردید کردی جائے اور ہر اثر کو براہ راست اور  بلاواسطہ خدا کی جانب منسوب کیا جائے اور اسباب کے کسی بھی کردار کا قائل نہ ہوا جائے؟ مثال کے طور پر ، ہم یہ مان لیں  کہ آگ جلانے میں اور پانی پیاس بجھانے میں،اور بارش نشوونما کی طاقت دینے میں اور دوا شفا یابی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے اور یہ خدا ہی ہے جو براہ راست جلاتا ہے اور براہ راست سیراب کرتا ہے اور براہ راست  اگاتا ہے اور براہ راست شفا دیتا ہے،اوران عوامل و اسباب کی موجودگی یا عدم موجودگی ایک جیسی ہے ،اور وہ چیز جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ  خدا کی عادت  اس بات پر جاری ہے کہ وہ اپنے امور کو ان اسباب  و عوامل کے ہوتے ہوئے ہی انجام دیتا ہے....(اشاعرہ اور قاعدۂ جبر کے ماننے والوں کا عقیدہ)۔یہ نظریہ بھی درست نہیں ہے۔[9]
*جس طرح کسی مخلوق کے وجود پر اعتقاد،شرکِ ذاتی کے مساوی اور ایک دوسرے خدا اور خدا کے سامنےکسی مستقل وجود  کے برابر نہیں ہے ، بلکہ یہ اعتقاد؛ ایک خدا کے وجود کو کامل کرنے والا اور اسے حدِّ تمام و کمال تک پہنچانے والا ہے، اسی طرح عالمی نظام  میں بھی مخلوقات کے اثر و رسوخ اور تاثیر و سببیّت کا اعتقاد رکھنا- جس طرح انسانو ںکو ذات میں استقلال اور آزادی حاصل نہیں ہے ، اسی طرح اثر و رسوخ  اور تاثیر و سببیّت میں بھی انہیں استقلال حاصل  نہیں ہے،وہ موجود ہیں اسکی ذات کے سبب اور مؤثر ہیں اسکی ذات سے- خالقیت میں شرک نہیں ہے، بلکہ ایسا اعتقاد ،پروردگار کی خالقیت کے اعتقاد کو حد ِّ تمام و کمال تک پہنچاتا ہے۔
ہاں ، اگر ہم تأثیر کے لحاظ سے مخلوقات کے لیے استقلال اور تفویض کے قائل ہوجائیں اور اس طرح فرض کریں کہ خدا کا دنیا سے رشتہ ایک  کاریگر  کااپنی مصنوعات کے ساتھ کی طرح ہے (مثال کے طور پر گاڑیاں بنانے والے کا گاڑی کے ساتھ رشتہ) کہ مصنوعات کو بننے میں ایک صنعتکار کی ضرورت ہے ، لیکن اس کے بعدجو بھی بنتا ہے وہ اپنے میکینزم کے مطابق اپنا کام جاری رکھتا ہے ، مصنوعات کو بنانے میں کاریگر اپنا ایک کردار ادا کرتا ہے لیکن نمونے بن جانے کے بعداسکے فنکشن میں اور اسکے کام کرنے میں کاریگر کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا ، اگر گاڑی بنانے والا نہیں رہتا اور مر جاتا ہے تب بھی گاڑی اپنا کام جاری رکھتی ہے، اگر ہم ایسا ہی سوچتے ہیں کہ دنیا کے عوامل-جیسے  پانی ،بارش ، بجلی ، حرارت ، مٹی ، پودے ، جانور ، انسان ، وغیرہ ، خدا سے ان کا رشتہ ایسا ہی ہےجیسے گاڑی بنانے والے کاریگر کا گاڑی کے ساتھ- (جیسا کہ معتزلیوں نے کبھی کبھی یہی نظریہ تجویز  کیا ہے)  تو پھر یقیناً ایسا اعتقادشرک ہے۔[10]
*وجود اور بقا میں مخلوق کو خالق کی ضرورت ہوتی ہے اور مخلوق اپنے وجود اور بقا میں خالق کا محتاج ہے ، مخلوقات جس قدر اپنی بقا اور تأثیر  میں  ضرورتمند ہیں اتنے ہی اپنے وقوع و حدوث میں بھی اسکے محتاج ہیں، دنیااسکے فضل و کرم کی دین ہے ، بس اسی سے وابستہ ہے ، وہی مواصلات کی بنیاد ،اور اسی پر اسکا انحصار ہے اور ہر چیز بس«اسی کی طرف سے» ہےجیسا ، اسی وجہ سے چیزوں کا اثر وسبب پروردگار کی تاثیر اور سببیت کے عین مطابق ہے،کائنات تمام طاقتیں اور قدرت-چاہے انسانوں کی ہوں یا کسی اور کی-پروردگار کی خلاقیت اور اسکی عظیم فاعلیت کے عین مطابق ہیں۔[11]
*بلکہ ، یہ اعتقاد رکھنا کہ کائنات کے کام میں اشیاء کا کوئی کرداررکھنے سے شرک لازم آتا ہے ،خود شرکیہ عقیدہ ہے کیونکہ یہ اعتقاد اس حقیقت سے نکلتا ہے کہ ہم ناآگاہانہ طور پر موجودات کی ذات کے لیے ذات ِحق کے بالمقابل استقلال کے قائل ہوجائیں اور پھر اس طرح اگر موجودات تاثیر میں کوئی کردار ادا کرتے ہوں تو ان تاثیرات کو دوسری جانب نسبت دے دیا گیا ہو،لہذا ، توحید اور شرک کے مابین سرحد یہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی اور اثر و رسوخ اور اسباب کو اس کا سبب اور اثر قرار دیتے ہیں یا نہیں۔[12]
محض اشیاء کی تأثیر کا عقیدہ شرک نہیں
*
کیا توحید اور شرک  کی سرحد یہی ہے کہ کسی طاقت اور مافوق الفطرت چیز کی تاثیر کو مانا جائے؟ یعنی فطرت کے عام قوانین سے بالاتر کسی موجود کی طاقت پر اعتقاد رکھا جائے ، خواہ فرشتہ ہو یا انسان (مثال کے طور پر ، نبی ہو یا ایک امام) شرک ہے، لیکن معمولی حد تک  طاقت اور تاثیر کا مظاہرہ شرک نہیں ہے،نیز مردہ انسان کی طاقت اور تاثیرپر اعتقاد رکھنا شرک ہے ، کیوں کہ مردہ آدمی بے جان اور جمادات کی منزل میں ہے ، اور فطری قوانین کے مطابق ، جمادات کے پاس نہ  شعور ہے نہ طاقت ہے اور نہ ہی ارادہ ، لہذا  اس بات کا عقیدہ کہ مردہ میں سمجھنے کی صلاحیت ہےاور اسے سلام کیا جاسکتا ہے اور اس تعظیم بجا ہےاور س کا احترام کرنا چاہیئے ، اس کو پکارنا اور اس کو آواز دینا اور اس سے کچھ مانگنا، شرک ہے ، کیوں کہ اس سےغیر خدا کے لیے  مافوق الفطرت طاقت کا اظہار ہوتا ہے، نیز ، اشیاء کے پراسرار اور نامعلوم اثرات پر اعتقاد رکھنا، ایک خاص قسم کی خاک کے اثر پر یقین کرنے کی بات ؛ خاص طور پر کسی بیماری کو ٹھیک کرنے میں ، یا  دعاؤں کی قبولیت کے لیےکسی خاص مقام کا اثر،شرک ہے ، کیونکہ اس کے لئے کسی مافوق الفطرت قوت پر یقین کرنا ضروری ہے چاہے جو وہ قدرتی  اور قابل شناخت ،قابل امتحان ،محسوس کرنے کے قابل اور لمس کرنے کے لائق ہو،اس بنیاد پرچیزوں کے لیے عام طور پر تاثیرات رکھنا شرک نہیں ہے(اس طرح کہ جیسے اشاعرہ نے گمان کیا ہے)بلکہ اشیاء کے لیے  مافوق الفطرت تاثیرات کا قائل ہونا شرک ہے، لہذا وجود دو حصوں میں تقسیم ہے: فطرت اور مافوق الفطرت ، فطرت سے بالاترچیزوں پر خدا کا خصوصی دائرہ ٔ اختیارہے ، اور فطرت خدا کی مخلوقات کا خاص دائرہ ٔ کارہے یا خدا اور مخلوق کا مشترکہ دائرۂ عمل،کچھ چیزوں کا پہلو  فطرت سے بالاتر ہے ، جیسے احیاء (زندہ کرنا) اور اماتہ (مارنا) ، رزق و روزی دینا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ، اور باقی چیزیں عادی اور معمولی ہیں،توحیدِ نظری کے لحاظ سےمعمول سے ہٹ کر پیش آنے والےاور مافوق الفطرت کام کا دائرہ خدا سے مخصوص ہےاور اسکے علاوہ چیزوں کا دائرۂ اختیار خدا کی مخلوقات کے ہاتھوں میں ہے۔[13]

از قلم: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
۔۔۔۔۔۔۔
منابع و ماخذ:

[1] ملک (۶۷): ۲۰۔

[2] آشنائی با قرآن (6 ـ 9 )،مجموعه آثار شهيد مطهري، ج27 ،ص535۔

[3] آشنائی با قرآن (6 ـ 9 )،مجموعه آثار شهيد مطهري، ج۲۶،ص ۵۳۹۔

[4] بقرہ (۲): ۲۔

[5] یٰس (۲۶): ۷۰۔

[6]   علل گرايش بہ  ماديگری، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج1 ،ص۵۷۱۔

[7]  جہانبينی توحيدی، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج2 ،ص۱۳۵۔

[8] جہانبينی توحيدی، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج2 ،ص۱۳۵۔

[9] جہانبينی توحيدی، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج2 ،ص۱۲۷۔

[10] جہانبينی توحيدی، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج2 ،ص۱۲۸۔

[11] جہانبينی توحيدی، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج2 ،ص۱۲۸۔

[12] جہانبينی توحيدی، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج2 ،ص۱۲۸۔

[13] جہانبينی توحيدی، مجموعه آثار شهيد مطهري، ج2 ،ص۱۲۸۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 55