شھید منی ڈاکتر فخرالدین کی حالات زندگی

Sun, 04/16/2017 - 11:16

ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین، کا تعلق بلتستان(پاکستان) کے اسکردو علاقہ سے تھا، آپنے دنیاوی تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم کا رخ کیا اور اعلی دینی تعلیم کو حاصل کرنے کے  ساتھ ڈاکٹریٹ کے درجہ تک پہونچے۔ پچھلے سال منا کے میدان میں رونما ہونے والے حادثہ میں جام شہادت کو نوش فرماتے ہوئے اپنے رب کی بارگاہ کا رخ کیا۔

شھید منی ڈاکتر فخرالدین کی حالات زندگی

شہید منٰی حجت الاسلام علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین 70 کی دہائی میں بلتستان کے نواحی گاؤں قمراہ اسکردو کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مرحوم کے والد ایک دیندار، ذاکر اہل بیت، دور اندیش اور سخی انسان تھے۔ مرحوم  نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں قمراہ سے حاصل کی اور میٹرک کی تعلیم ہائی اسکول نمبر ایک اسکردو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج اسکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے پوزیشن ہولڈٖروں میں شامل ہوتا تھا۔ وہ اسکول اور کالج کی تعلیم کے دوران ہر کلاس کے ممتاز طالب علم رہے۔ ان کے دوستوں کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کالج دور میں آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر رہے۔ تحریک جعفریہ بلتستان اسکردو کے جنرل سیکرٹری رہے۔ پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی مدبرانہ، عالمانہ اور مبارزانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔ موصوف کے پسماندگان میں والدہ، اہلیہ، چار بیٹے، دو بیٹیاں اور دو بہنیں شامل ہیں۔(1)
علمی سفر
ایک طرف آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، دوسری طرف آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، اس لئے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر کہیں اور جانا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن آپ کے والدین کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ ان کے بیٹے کو علم دین حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے۔ انھوں نے نہ صرف اس بات کی اجازت دی بلکہ ان کی رضامندی سے گریجویشن کے بعد 1995ء میں اعلٰی دینی تعلیم یعنی علوم محمد وآل محمد کے حصول کے لئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے، جہاں آپ  نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کم وقت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ رواں سال 28 جنوری کو جامعۃ المصطفٰی العالمیہ قم سے اعزازی نمبروں کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے اساتید میں آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ وحید خراسانی، آیت اللہ معرفت، آیت اللہ غلام عباس رئیسی، حجت االاسلام سید حامد رضوی، ڈاکٹر محمد علی رضائی، ڈاکٹر محمد حسن زمانی وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے حضرت آیت اللہ بہجت سے روحانی و عرفانی فیوضات حاصل کئے۔ حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علوم قرآنی  و تفاسیر اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھرا۔ ظاہری علوم کے ساتھ اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھرپور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں نے ملک بھر میں مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا ایک موثر سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔(2)
شہید نے مذکورہ بالا شعبوں کے علاوہ قومی اور اجتماعی میدان میں بھی زمانہ طالب علمی سے جام شہادت نوش کرنے تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب و کامران رہے۔ علمی دنیا میں ابتدا سے ہی آپ کا رجحان علوم  دینیہ کی طرف تھا۔ طالب علمی کے دور میں آپ کو مذہبی اسکالر بننے کا شوق تھا۔ کالج کے دور میں تنظیمی دوستوں اور کالج فیلوز کے ساتھ اکثر علمی موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ بسا اوقات بحث اس حد تک طول پکڑتی کہ موضوع کی پیچیدگیوں کو سلجھانے اور اس کے حل کے لئے علماء کرام سے بھی رجوع کرنا پڑتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان المبارک میں قتل گاہ مسجد میں درس اخلاق کے لئے حجت الاسلام شیخ یوسف کریمی تشریف لاتے تھے، ان سے مختلف موضوعات پر استفادہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے علاوہ حجت الاسلام آقا علی رضوی، حجت الاسلام شیخ اصغر حکمت کے پاس علمی تشنگی بجھانے کے لئے کثرت سے حاضر ہوتے۔ آپ ؒ علمی میدان میں آیت اللہ العظمٰی سید ابوالقاسم خوئی اعلی اللہ مقامہ، شہید محراب آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اعلی اللہ مقامہ اور آیت اللہ استاد شہید مطہری اعلی اللہ مقامہ کے گرویدہ تھے۔ جہاں بھی آپ کو موقع ملتا، عمامہ سازی کرتے تھے، گویا طالب علمی کے زمانے میں عمامہ سازی آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

آپ کی شخصیت کی ایک نمایاں صفت، تحقیق و جستجو ہے۔ سیاسی حالات ہوں یا تنظیمی معاملات، قومی مسائل ہوں یا ملی مشکلات، ان کی تفہیم اور حل میں آپ افواہوں یا دوسروں کی اندھی تقلید کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی آپ کسی قسم کی مصلحت کا شکار ہوتے تھے، بلکہ ان تمام معاملات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے اور تحقیق کے بعد اپنا نقطہ نظر واضح کرتے اور اس پر ثابت قدم بھی رہتے۔ اگرچہ ان کے اس رویے سے بہت سوں کو اختلاف تھا۔ اسی لئے ان کی مختصر سی عملی زندگی میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایا جاتا۔ عملی زندگی میں جس طرح آپ حق و حقیقت کو اہمیت دیتے تھے، علمی میدان میں بھی آپ کا رجحان تحقیق کی طرف مائل تھا۔ آپ  بہترین قاری، خطیب، ذاکر، ماتمی اور لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلٰی پائے کے محقق بھی تھے۔ جامعۃ المصطفٰی قم سے آپ نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر کتابیں تالیف کرنے کے ساتھ کئی تحقیقی مقالے بھی تحریر کئے۔ آپ کے زیر ادارت رسالہ ’’بصیرت‘‘شائع ہوتا تھا۔ شہید کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ایک فرض شناس اور دشمن شناس شخصیت اور ظاہری نفاست و پاکیزگی کے ساتھ ساتھ باطنی نفاست و پاکیزگی کے حامل و مالک شخصیت تھے۔ اسی لئے فریضہ حج کے دوران عرفات کے اعمال سے فارغ ہو کر منٰی  میں جام شہادت نوش کرگئے۔ شہادت ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتی۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع؛

(1) مجلہ بصیرت سیریل نمبر 10 ص 25

(2) شھدائ پاکستان ص نمب 193

(3) سایٹ شھداے پاکستان

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
18 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41