شہید شیخ نمر باقر النمر کے ہاتھوں کی تحریر، عزت و کرامت کی عرضداشت(۲)

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:شیخ نمر کی عرضداشت نے سعودی عرب کے اندرونی اور بیرونی افکار کی توجہ کو اپنی طرف جلب کر لیا، ان کی یہ تحریر ہر عام و خاص کا موضوع سخن بن گئی۔ یہ وہ چیز تھی جس نے آل سعود کی نیندوں کو حرام کر دیا۔ حالانکہ اگر سعودی حکومت اس منشور کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی رعایا کے پامال ہو رہے شہری حقوق پر تجدید نظر کرتی تو ملک کی صورت حال میں بہتری آ سکتی تھی۔

شہید شیخ نمر باقر النمر کے ہاتھوں کی تحریر، عزت و کرامت کی عرضداشت(۲)

۴: مدارس اور یونیورسٹیوں کے تمام دینی نصاف کو تبدیل کیا جائے اور اس کی جگہ مندرجہ ذیل آپشنوں میں سے کوئی ایک آپشن انتخاب کیا جائے:
الف: دینی نصاف میں صرف ایسے مواد کو لایا جائے جو اسلام کے مشترکہ نکات پر مبنی ہوں اور ان میں کسی قسم کے اختلافی مسائل کو اشارۃ بھی بیان نہ کیا جائے۔ یہ وہ بہترین آپشن ہے جو سب کی خوشحالی کا باعث ہے مگر وہ لوگ کہ جو اختلافی نظریات کے مالک ہیں اور دوسروں کو اپنی طاقت یا اسلحہ کے زور پر دبا کر رکھنا چاہتے ہیں، دلیل کے مقابلے میں دلیل اور برہان کے مقابلے میں برہانے لانے سے عاجز ہیں( وہ دینی مشترکات پر مبنی نصاب کو رائج کرنے پر راضی نہیں ہوں گے)۔
ب؛ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے الگ الگ نصاب معین کیا جائے اس طریقے سے کہ ہر طالبعلم اس صورت میں کہ وہ سن بلوغ کو پہنچ چکا ہو اپنے لیے خود دینی نصاب کا انتخاب کرے اور سن بلوغ تک نہ پہنچنے کی صورت میں اس کا ولی و وارث اس کے لیے نصاب کا انتخاب کرے۔
 پ؛ علاقے کی مذہبی اکثریت کے پیش نظر نصاب کا مواد انتخاب کیا جائے مثال کے طور پر قطیف اور اس کے مانند علاقوں میں شیعی عقائد پر مبنی نصاب رائج کیا جائے۔
ت؛ اسکول یا یونیورسٹی میں مذہبی اکثریت کے پیش نظر نصاب معین کیا جائے یعنی جن اسکولوں میں شیعہ طالبعلم زیادہ ہیں وہاں ان کے مذہب کے مطابق نصاب لگایا جائے۔
۵: مدینہ منورہ میں مدفون ائمہ اطہار(ع) کی قبروں پر روضے بنانے نیز دیگر ممالک( ایران و عراق) میں موجود روضوں کی زیارتوں کی اجازت دی جائے۔ وہ حکومت جو اس سے پہلے ایک معمولی اور چھوٹے سے ٹولے کے سامنے جھک گئی اور اسے جنت البقیع کے روضوں کو گرانے کی اجازت دے دی اور نہ صرف شیعوں بلکہ اہل بیت(ع) کے چاہنے والوں کے دلوں کو زخمی کرنے کا باعث بنی، لہذا اپنی گزشتہ خطاؤں اور غلطیوں کے جبران کے لیے ان روضوں کو تعمیر کئے جانے کا سارا خرچ موجود حکومت برداشت کرے۔ یہ زخم ایام، سال یا صدیاں گزرنے کے بعد بھی نہیں بھریں گے جب تک کہ ان روضوں کو پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر نہ کیا جائے۔ روضوں کو مسمار کرنے والا مٹھی بھر ٹولہ نہ کسی اسلامی مذہب کا نمائندہ ہے اور نہ اس کے افکار و عقائد کسی اسلامی مذہب سے ملتے جھلتے ہیں۔ اسلامی مذاہب سے اس کا کوئی رشتہ نہ ہونے کی واضح دلیل ایک یہ ہے کہ وہ روضہ رسول کو بھی گرانا چاہتا ہے جبکہ کوئی اسلامی فرقہ اس کام کی اجازت نہیں دیتا۔
۶؛ قرآن کریم، پیغمبر اکرم(ص) اور اہل بیت اطہار(ع) کی تعلیمات پر مبنی دینی علوم کو فروغ دینے کے لیے حوزہ ہائے علمیہ، دانشگاہوں اور دینی انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کی اجازت دی جائے جیسا کہ عراق، ایران، شام، لبنان اور دیگر اسلامی ممالک میں اجازت ہے۔
۷؛ مذہب جعفریہ کے مطابق مستقل شرعی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت دی جائے اور دیگر عدالتوں میں بھی ضرورت کے مطابق شیعہ قاضیوں کو رکھا جائے تاکہ وہ اپنے مذہب تشیع کے ماننے والوں کے تمام امور کو ان کے مذہب کے مطابق حل و فصل کر سکیں۔
۸؛ شیعہ علماء کونسل کو بنعنوان ’’ اہل بیت(ع) فقہا کونسل‘‘ تشکیل دینے کی اجازت فراہم کی جائے کہ جس میں وہ لوگ رکنیت حاصل کریں جو درجہ اجتہاد پر فائز ہوں اور ان کی ذمہ داری شیعہ طبقے کے دینی و دنیوی امور کی دیکھ بھال، ان کی شرعی ضروریات کو پورا کرنا اور دیگر مسائل میں صحیح صلاح و مشورہ دینا اور ان کی بطور کلی ہدایت کرنا ہو۔ یہ کونسل مستقل اور اندونی یا بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو۔
۹؛ مساجد، امام بارگاہوں اور دینی مراکز تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے اور ان مشکلات و مسائل کو ختم کیا جائے جو اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔
۱۰؛ تمام دینی شعائر کو منعقد کرنے میں لوگوں کو آزاد چھوڑا جائے۔
۱۱؛ سرکاری ذرائع ابلاغ میں مذہب تشیع کے علماء کو بھی دینی مسائل بیان کرنے کی اجازت دی جائے۔
۱۲؛ مسجد الحرام اور مسجد النبی میں نماز جماعت کی امامت میں شیعہ مذہب کے ماننے والوں کو بھی مناسب سہم دیا جائے۔
۱۳؛ بیرون ملک سے شیعہ کتابوں کو لانے یا ملک کے اندر چھپوانے کی اجازت دی جائے۔
۱۴؛ حکومت کے زیر نظر تنظیموں جیسے مسلم ورلڈ لیگ یا اس کے مانند تنظیموں میں شیعوں کو بھی منصفانہ شراکت دی جائے۔
۱۵؛ حکومتی مناصب میں ترقی نیز وزارتخانوں، مشاورتی کمیٹیوں اور ایوان بالا میں اہل تشیع کے تناسب سے انہیں بھی منصفانہ سہم دیا جائے۔
۱۶؛ لڑکیوں کے تعلیمی نظام میں مدیریت کا حق، اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک اہل تشیع کو بھی ان کی تعداد کے مطابق دیا جائے۔
۱۷؛ آرامکو کمپنی اور دیگر حکومتی کمپنیوں میں شیعوں کو بھی ان کی صلاحیتوں کے مطابق مینیجمنٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔
۱۸؛ شیعہ جوانوں کو سرکاری نوکریاں اور حکومتی یا حکومت سے وابستہ اداروں میں مینیجمنٹ کی اجازت دی جائے۔
۱۹؛ قطیف میں ایک ایسا دانشگاھی ٹاون تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے جس میں تمام علمی و تخصصی شعبہ جات فراہم ہوں ہائی اسکینڈری کے بعد طلبہ اور طالبات اس میں اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔
۲۰؛ وہ تمام ملازم جنہیں ۱۹۷۹ یا اس کے بعد مختلف اسباب کی بنا پر جیلوں میں بند کئے جانے کی وجہ سے نوکریوں سے برکنار کر دیا گیا تھا کو دوبارہ ملازمتیں دی جائیں اور اس درمیان جو ان کی تنخوائیں ضائع ہوئی ہیں انہیں ادا کی جائیں اور ان کے لیے آئندہ بہتر زندگی گزارنے کے شرائط مہیا کئے جائیں۔
۲۱؛ تمام سیاسی قیدیوں خاص طور پر وہ قیدی جو مدتوں سے کال کوٹھریوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے بیوی بچے، ماں باپ اور دیگر گھرانے والے ان کے انتظار میں لمحہ شماری کر رہے ہیں فوری طور پر رہا کیا جائے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر سے اپنی نئی اور کریمانہ زندگی کا آغاز کر سکیں۔
۲۲؛ بے روزگاری کی مشکل کو حل کیا جائے اور دانش آموختہ اور پڑھے لکھے افراد کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مناسب تنخواؤں جن سے وہ باعزت زندگی گزار سکیں( شادی بیاہ کے مسائل نمٹا سکیں، گھر تشکیل دے سکیں اور روز مرہ کے مادی وسائل اور سہولیات فراہم کر سکیں) کے ساتھ نوکریاں دی جائیں۔
۲۳؛ مسائل کو آپس میں گڈمڈ کرنے سے پرہیز کیا جائے اور ہمیشہ انہیں سکیورٹی کی نظر سے نہ دیکھا جائے اس لیے کہ بہت سارے مسائل کا ملک کی سکیورٹی سے کوئی ربط نہیں ہوتا لیکن انہیں سیاسی ایشو بنا کر سکیورٹی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو بہت ساری مشکلات بلکہ بسا اوقات بحران کے وجود میں آنے کا باعث بن جاتا ہے۔
۲۴؛ حکومت تمام گروہوں اور فرقوں سے مساوی طور پر علیحدگی اختیار کرے اور کسی ایک فرقے یا گروہ کی طرف اپنی رغبت کا اظہار نہ کرے تاکہ دیگر گروہوں اور فرقوں کے لیے ناگواری کا باعث نہ بنے، اس لیے کہ حکومت کا یہ طریقہ کار اسے سخت مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے۔
۲۵؛ ایسے عوامی اور سرکاری مراکز قائم کئے جائیں جو سرکاری عہدہ داروں سے عوام کے مطالبات کی دیکھ ریکھ کریں اور حاجتمندوں کے حقوق کو انہیں دلانے اور مجرموں کو سزائیں دلوانیں کی کوشش کریں۔ بہتر ہے کہ یہ مراکز صوبائی حکومتی ادروں میں موجود ہوں اور حکومت اپنے قابل اعتماد افراد کو ان کے لیے انتخاب کرے اور لوگ بھی اپنے نمائندوں کو منتخب کر کے ان میں شامل کریں اسی طرح یہ مراکز ہر شہر میں ایک کمیٹی تشکیل دیں جس کے اراکین کو خود عوام منتخب کریں تاکہ مستضعف اور مظلوم طبقہ افراد ان کمیٹیوں کی طرف رجوع کریں اور وہ کمیٹیاں ان کے مطالبات کو مراکز تک منتقل کریں اور ان کی شکایتوں کو ان سے مربوط مراکز تک پہنچائیں اور آخر تک ان کا پیچھا کریں۔
آخر میں خداوند منان سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں کو پاکیزہ بنائے ہماری زبانوں کو پاکیزہ بنائے ہمارے درمیان محبت اور الفت پیدا کرے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کرے، ہمارے دشمنوں کو شکست سے دوچار کرے اور ہمارے نعرے( کلمہ توحید) کو سربلندی عطا کرے۔[1]
’’ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ  وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین۔
                                                                  نمر باقر النمر
                                                                ۳ رجب ۱۴۲۸ ھ ق
                                                         مطابق با ۱۸ جولائی ۲۰۰۷ ع م

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] www.abna.ir

مذکورہ مطالب کو تھوڑی ترمیم کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 12 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 43