حضرت امام علی رضا علیہ السلام
خلاصہ: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں اللہ تبارک و تعالی نے عہدہ امامت کے لئے اپنا ایسا قانون بتایا جس سے قیامت تک ہر ظالم کی امامت کو باطل کردیا وہ یہ تھا کہ میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔
خلاصہ: کسی شخص کو کسی مقام کے لئے منتخب کرنے کے لئے اس مقام کی پہچان ضروری ہے اور اگر پہچان نہ ہو تو منتخب کرنا فضول ہے، کیونکہ جب مقام کی پہچان نہیں تو اس مقام کےلئے لائق شخص کی بھی پہچان نہیں، اسی طرح امامت کے بلند مقام سے لوگ ناواقف ہیں تو ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو امام بنائیں، لہذا صرف اللہ تعالی کسی کو امام منصوب کرسکتا ہے۔
خلاصہ: امام وہ عظیم ہستی ہے جس کے ذریعہ نماز، زکات، روزہ، حج اور جہاد مکمل ہوتے ہیں، لہذا جو امام برحق کو تسلیم نہیں کرتا اس کے یہ اعمال بھی مکمل نہیں ہیں۔
خلاصہ: امام چونکہ معصوم ہے تو اللہ تعالی کے حلال و حرام کو اسی طرح بیان اور جاری کرتا ہے جیسا اللہ نے حکم دیا ہے اور اللہ کی حدود کو جاری کرتا اور اللہ کے دین کی حفاظت کرتا ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ کی طرف اچھے طریقہ سے بلاتا ہے۔
خلاصہ: دین چونکہ اللہ کی طرف سے ہے تو امام کو بھی اللہ کی طرف سے منصوب ہونا چاہیے تا کہ دین الہی کو زمین پر نافذ کرسکے، امام کیونکہ دین کے ہر مسئلہ سے آگاہ ہے تو دین کی باگ ڈور اللہ نے اسی کے ہاتھ میں دی ہے۔
خلاصہ: امامت کوئی عوامی مقام نہیں ہے جس کے لئے لوگ خود کسی کو منتخب کرلیں، بلکہ امامت اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت ہے، لہذا صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو امام بنائے۔ بنابریں لوگوں کا اس بارے میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یقیناً ان کا انتخاب غلط ہوگا جیسا کہ نسل انسانیت اپنے انتخاب کا نتیجہ ہر دور میں دیکھتی آرہی ہے جو سراسر ظلم و فساد ہے۔
خلاصہ: امامت کا سلسلہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا اور اس کے بعد آپؐ نے اللہ کے حکم سے امامت، حضرت علی (علیہ السلام) کے ذمہ کی، سلسلہ امامت قیامت تک حضرت علی (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کی منتخب اولاد تک محدود رہے گا۔
خلاصہ: حضرت ابراہیمؑ کو برگزیدہ اور پاک اولاد میں اللہ تعالی نے امامت کو قرار دیا اور اس ذریعہ سے حضرت ابراہیمؑ کی عزت افزائی کی اور نیز اس پاک اولاد جسے امامت عطا فرمائی، ان میں کئی صفات قرار دیں۔
خلاصہ: رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حدیث ثقلین میں قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کو دو ایسی چیزوں کے طور پر متعارف فرمایا جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے آپ ؐ کے پاس آئیں۔
خلاصہ: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالی نے جو مقام امامت دیا وہ نبوت اور خلت کے بعد تھا، لہذا مقام امامت نبوت اور خلت سے بالاتر ہے اور جسے اللہ چاہے یہ مقام عطا فرماتا ہے، کوئی شخص کوشش کرکے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔