آیت امامت نے ہر ظالم کی امامت کو تا قیامت باطل کردیا

Wed, 08/23/2017 - 19:17

خلاصہ: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں اللہ تبارک و تعالی نے عہدہ امامت کے لئے اپنا ایسا قانون بتایا جس سے قیامت تک ہر ظالم کی امامت کو باطل کردیا وہ یہ تھا کہ میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔

آیت امامت نے ہر ظالم کی امامت کو تا قیامت باطل کردیا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "فَقَالَ الْخَلِيلُ ع سُرُوراً بِهَا "وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ" ‏اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ "لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ" فَأَبْطَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ إِمَامَةَ كُلِّ ظَالِمٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ صَارَتْ فِي الصَّفْوَة" ‏، "(جب اللہ نے حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا: میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں) تو خلیلؑ نے امامت سے خوش ہوتے ہوئےکہا: اور میری اولاد میں سے بھی؟ اللہ عزوجل نے فرمایا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا، تو اس آیت نے ہر ظالم کی امامت کو قیامت کے دن تک باطل کردیا اور امامت برگزیدہ افراد میں قرار پائی" [عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217]۔ ان فقروں سے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ مقام امامت ایسا مقام ہے جس کے عطا ہونے پر حضرت ابراہیمؑ خوش ہوئے اور خوشی کی حالت میں ہی اپنی نسل میں سلسلہ امامت کے جاری رہنے کے بارے میں سوال کیا۔
۲۔ اللہ تعالی نے آپؑ کے سوال کے جواب میں ایسا قانون بتایا جو سب انسانوں کے لئے ہے اور اس قانون کے ذریعہ ہر ظالم کی امامت کو قیامت کے دن تک باطل قرار دیا، لہذا قیامت تک جو  ظالم بھی امامت کا دعوی کرے گا وہ امام نہیں ہوگا۔
۳۔ یہ جو عہدہ امامت کی ظالموں سے نفی کردی، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کو کسی بھی لحاظ سے ظالم نہیں ہونا چاہیے، لہذا امام کو معصوم ہونا چاہیے اور نیز امامت برگزیدہ افراد میں قرار پائی۔
حوالہ
[عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217، شیخ صدوق، نشر جہان، تہران، 1378ش]
[آیت کا ترجمہ: مولانا شیخ محسن نجفی صاحب کے ترجمہ قرآن سے]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 35