تکبر
تکبر، یعنی انسان باطن اور اندرونی طور سے حقیقت کا انکار کرے چاہے زبان پر نہ لائے ، ایسا انسان مستکبر ہے ، قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا: فَالَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَه قُلُوبُهُمْ مُنْکِرَه وَ هُمْ مُسْتَکْبِرُونَ ؛ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے دل منکر قسم کے ہیں اور وہ خود
قران کریم اور روایتوں میں تکبر کو بدترین اخلاقی صفت میں شمار کیا گیا ہے اور علمائے علم اخلاق نے اس سلسلہ میں بہت ہی مفصل گفتگو فرمائی ہے ، خود کو دوسروں سے بہتر اور ان سے بالاتر جاننا تکبر کی بنیاد ہے ، متکبر کے ذھن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ گویا وہ دوسروں سے بہتر اور برتر ہے لہذا دوسرے اس کا اح
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی انا کے اسیر نظر آتے ہیں جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔
خلاصہ: جب معاشروں کی تباہی پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تکبر، طرح طرح کے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی جڑ ہے۔
خلاصہ: متکبر انسان کو کبھی بھی بلندی نہیں مل سکتی کیونکہ کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا۔
پروردگار نے متکبرین کو ذلیل کیا ہے اور مغرورین کی ناک رگڑی ہے۔ غرور کا نتیجہ ناکامی، مایوسی، ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔خدا ان متکبروں کو سخت ناپسند کرتا ہے جن کی چال میں اکڑ ہوتی ہے اور ایسے لوگوں پر زمین و آسمان لعنت کرتے ہے۔ائمہ معصومین علیہم السلام نے غرور کا علاج پیونددار لباس، کہنہ نعلین گرد آلود چہرہ اور بازار سے سامان لا نے، معمولی سواری پر سوار ہونے اور مساکین کی ہم نشینی کو قرار دیا ہے۔ اور یہی طرز عمل اپنایا بھی ہے۔اللہ نے تکبر کرنے والوں سے نعمتیں سلب کرلی ہیں۔ شیطان کا انجام پیش نظر ہے کہ وہ اس ایک تکبر کی وجہ سے نعمت قرب الٰہی سے محروم ہو گیا۔ لہٰذا خبردار اس جلاد سے محفوظ رکھنا اور اس کے اسباب سے بھی اپنے کو بچائے رکھنا۔اسی ضمن میں مندرجہ ذیل نوشتہ ملاحظہ فرمائیں.
خلاصہ: انسان جب نعمتیں حاصل کرلیتا ہے تو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے اور تکبر کرتا ہے اور اللہ کو بھلا دیتا ہے، جبکہ وہ بے نیاز نہیں ہے، وہ پہلے کی طرح ہی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔
خلاصہ: جب انسان کو نعمت مل جائے تو انسان تکبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رُخ موڑ لیتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچے تو مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے، یہ دونوں حالتیں لائق مذمت ہیں۔
خلاصہ: روزے کی حالت میں نہ فقط اخلاص بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دین کی بھی آزمائش ہوتی ہے۔