خلاصہ: روزے کی حالت میں نہ فقط اخلاص بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دین کی بھی آزمائش ہوتی ہے۔
روزہ کے بہت زیادہ مقاصد ہیں جن کو ظاہری طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن خداوند متعال نے قرآن مجید میں روزہ کے مقصد کو تقوی کے حصول قرار دیا ہے، یہ ایک ایسا مقصد ہے جس میں انسانیت کے کمال کے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی تمام تر مقاصد شامل ہیں، لیکن یہ تقوی کس طرح حاصل ہوتا ہے اس کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے تاکہ خدا ہم سے جو تقوی کو طلب کررہا وہ حاصل ہو۔
۱۔ روزہ ايمان اور اراده کی مضبوطی کا سبب: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کے بارے میں فرمارہے ہیں: «عَلَيْكُمْ بِصِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ فَإِنَ صِيَامَهُ جُنَّةٌ حَصِينَة؛ ماہ رمضان کے روزے تم پر ضروری ہے بے شک اس مہینہ کے روزے جہنم کی آگ سے بچانے والے ہیں»۔[بحار الانوار، ج:۷۴، ص:۴۰۵]۔
۲۔اپنی اصلاح: امیر المؤمنین حضرت علی(علیہ السلام) روزہ کی خصوصیت کے بارے میں اس طرح فرمارہے ہیں: «وَالصِّيَامَ ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلق؛ روزے مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے»[بحار الانوار، ج:۶، ص:۱۱۰]۔
روزے کی حالت میں نہ فقط اخلاص بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دین کی بھی آزمائش ہوتی ہے۔
اگر انسان کے اندر یہ دونوں چیزیں آجائے تو کبھی بھی خدا کے علاوہ کسی کا محتاج نہیں رہیگا اور روزے کا مقصد بھی یہی ہے۔
*بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، دار إحياء التراث العربي، بیروت، ۱۴۰۳۔
Add new comment