خلاصہ: جب معاشروں کی تباہی پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تکبر، طرح طرح کے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی جڑ ہے۔
اخلاقی پست صفات میں سے پہلی صفت جو ابتدائے خلقت اور انبیاء کی داستانوں میں دکھائی دیتی ہے اور بہت سارے علمائے اخلاق کے نظریے کے مطابق امّ المفاسد، سب تباہیوں اور انسانی برے صفات کی جڑ ہے، تکبر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے۔
حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلقت اور آنحضرتؑ کے لئے ملائکہ اور ابلیس کو سجدہ کے حکم کے وقت، شیطان کی داستان میں تکبر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی بات ہے کہ شیطان نے تکبر کیا۔
سورہ بقرہ کی آیت ۳۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَ اذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا الّا ابْلِيْسَ ابَى وَاسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ"، "اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ ابلیس کے سوا سب سجدہ میں گر گئے۔ اس نے انکار و تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا"۔
یہ داستان سب لوگوں اور سب معاشروں کے لئے بہت عبرت آموز، اصلاح کا باعث، ہوشیار کرنے والی اور حقیقت کو واضح کرنے والی ہے۔
تکبر کے ساری تاریخ میں نقصانات واضح ہوتے رہے ہیں۔
آج بھی انسانی معاشروں میں بین الاقوامی اور معاشرتی سطح پر تباہیوں میں پہلا اور بنیادی کردار تکبر کا ہے۔ اس وجہ سے معاشرے اس بری صفت کی آگ میں جل رہے ہیں اور کم ہی کوئی اس کے لئے سوچ بیچار کرتا ہے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج۲، ص۲۱۔
Add new comment