تکبر کی پیدائش کی بنیادیں اور اسباب

Wed, 01/03/2024 - 06:34

تکبر، یعنی انسان باطن اور اندرونی طور سے حقیقت کا انکار کرے چاہے زبان پر نہ لائے ، ایسا انسان مستکبر ہے ، قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا: فَالَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَه قُلُوبُهُمْ مُنْکِرَه وَ هُمْ مُسْتَکْبِرُونَ ؛ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے دل منکر قسم کے ہیں اور وہ خود مغرور و متکّبر ہیں "۔ (۱)

متکبر، خود کو دوسروں سے بہتر اور ان پر برتر سمجھتا ہے ، یہ خود پسندی و غرور ، تکبر و امریت کا وہ نطفہ ہے جو انسان کے اندر غرور بنیادیں ڈال دیتا ہے ، در حقیقت غرور اور برتری ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کے اندر طغیانیت لاتی ہے اور دوسروں کو کمزور بنانے کی کوشش کرتی ہے ، مستکبر انسان دوسروں کو فقیر اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کی فقر و تنگدستی سے سوء استفادہ کرسکے ، یعنی تکبر اور غرور کی پیدائش کی بنیاد اور وجہ دوسروں کی جہالت اور نادانی ہے ، متکبر اور مغرور انسان دوسروں کے جہالت اور نادانی سے خود کو مضبوط بناتا ہے ، متکبر اور مغرور انسان اس راہ میں اس قدر اگے نکل جاتا ہے کہ اپنے راستے گم کر بیٹھتا ہے نتیجتاً اس کی عقل اور اس کا شعور شہوت کا غلام اور نفسانی خواہشات کی زنجیروں میں جکڑ جاتا ہے اور وہ اپنے خدا ، قیامت اور حساب و کتاب کو بھول بیٹھتا ہے ، یہی وہ بنیاد اور اسباب ہیں کہ انبیاء الھی نے انسانوں کو خدا کی عبادت ، اس کی اطاعت و پیروی کی دعوت دی ہے ۔ (۲)

انفرادی تکبر

جب تکبر اور غرور انسان کے اندر اور اس کے باطن کا حصہ اور اس کا ملکہ بن جائے تو پھر یہ صفت دو طرح سے ظاھر ہوتی ہے :

ایک باطن اور مزاج سے کہ جو انسان کے نفس میں بس جاتی ہے اور انسان کے نظریات و افکار کی بنیاد قرار پاتی ہے ، ایسا انسان ہرگز حقیقت کو نہیں دیکھتا ، حقیقت کو نہیں مانتا ، ایسے انسان کے سلسلہ میں قران کریم کا ارشاد ہے : " ثُمَّ أَدْبَرَ وَ اسْتَکْبَرَ فَقالَ إِنْ هذا إِلاَّ سِحْرٌ یُؤْثَرُ ؛ پھر منہ پھیر کر چلا گیا اور اکڑ گیا اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے" ۔ (۳)

انفرادی تکبر کی دوسری حالت ، وجود سے باہر کی حالت ہے ، جس انسان کے مزاج میں تکبر رچ بس گیا ہو اس کا ظاھر متکبرانہ ہوگا ، ایسا انسان ہمیشہ لوگوں کو ضعیف و کمزور اور ناتواں بنانے میں کوشاں ہوگا ، (۴) در حقیقت تکبر کی دوسری قسم کا تعلق متکبر کے ظاھری کردار ، لوگوں کے ساتھ اس کے برتاو اور عمل سے ہے کہ جو سامراجی افکار کی بنیاد ہے ، (۵) نتیجتاً جس انسان کا پورا وجود یعنی ظاہر و باطن تکبر سے بھرا ہو وہ خود اور خدا کو بھول بیٹھے گا ، جیسا کہ قران کریم کا ارشاد ہے: " وَ لا تَکُونُوا کَالَّذینَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولئِکَ هُمُ الْفاسِقُونَ ؛ اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو اِھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی اِھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں" ۔ (۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: قران کریم ، سورہ نحل، ایت۲۲ ۔

۲: خاتمی، مطبوعات ایران ۱۳۴۳ – ۱۳۵۳، ص ۹۳، ۸۰ و۸۱ ۔

۳: قران کریم ، سورہ مدثر، ایت ۲۳و۲۴۔

۴: مجموعه آثار شهید مطهری،فلسفه تاریخ در قرآن، ص 911 و 912)

۵: محجۃ البیضاء، ج ۶، ص ۲۲۸؛ و احیاء العلوم الدین، ج۳، ص ۵۰۰؛ و خاتمی، مطبوعات ایران ۱۳۴۳ – ۱۳۵۳، ص ۶۳ ۔

۶: قران کریم ، سورہ حشر، ایت ۱۹ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 29