رسول اکرم (ص) سے متعلق مضامین
’’حدیث رفع ‘‘اور حدیث ’’لاضرر ‘‘ وغیرہ تقیہ کے جواز پر اہم ترین دلائل میں شمار ہوتی ہیں، اسی طرح وہ احادیث جو جھوٹ اور " توریہ" کو خاص موارد میں تجویز کرتی ہیں، جیسے "کتمان" سے مربوط احادیث وغیرہ بھی تقیہ کی مشروعیت پر بہترین دلیل ہے اسی طرح اکراہ سے متعلق احادیث بھی تقیہ پر دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں؛من جملہ اسکے مندرجہ ذیل نوشتہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ: سورہ الحمد کی آیت الحمدللہ ربّ العالمین کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے فرمان اور سیرت کے طور پر اس مضمون میں تین احادیث کو ذکر کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی جو وقت ہے وہ اس کی جوانی کا وقت ہے، اسی لئے ہم کو چاہئے کہ ہم اپنے اس قیمتی وقت کو صحیح طریقہ سے استعمال کریں۔
خلاصہ: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک رہتے تھے۔
ولادت سید المرسلین[ص] اور ولادت امام صادق[ع] 17 ربیع الاول کی اس بابرکت افق پر نظر آتی ہے جس نے انسانیت کی وہ عظیم خدمت انجام دی جسے دنیا اپنے وجود کی انتہا تک بھی نہیں بھلا سکتی۔
خلاصہ: پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی بہترین اور افضل مخلوق ہیں اور اللہ کی ساری مخلوق سے افضل ہیں۔
عربی لغت میں " معراج" ایک وسیلہ کے معنی میں ہے، جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن روایتوں اور تفسیر میں اس لفظ کو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مکہ سے بیت المقدس کی طرف اور وہاں سے آسمانوں کی طرف اور پھر اپنے وطن لوٹنے کے جسمانی سفر کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ جو کچھ اسلا
خلاسہ: پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ غار میں جوبھی تھے قرآن غم اور پریشانی کو ایک نقطۂ صعف کے طور پر بیان کررہا ہے۔
چکیده:قرآن حکیم کی متعدد آیات میں فلسفہ معراج کی طرف اشارہ کیا ہے پہلی سورۃ بنی اسرائیل ہے اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ۔ یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجدِ الاقصیٰ تک کا سفر۔
بعثت پیامبر حقیقت میں انسانیت کی سب سے بڑی عید ہے جس دن خداوند متعال نے اپنے پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے قیامت تک انسانیت کی ہدایت کا بندوبست کیا ۔بعثت پیمبر ص کے حوالے سے ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم بعثت کے اھداف ومقاصد کو سمجھے اور اپنی زندگی میں ان اھداف کی محوریت میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں