’’حدیث رفع ‘‘اور حدیث ’’لاضرر ‘‘ وغیرہ تقیہ کے جواز پر اہم ترین دلائل میں شمار ہوتی ہیں، اسی طرح وہ احادیث جو جھوٹ اور " توریہ" کو خاص موارد میں تجویز کرتی ہیں، جیسے "کتمان" سے مربوط احادیث وغیرہ بھی تقیہ کی مشروعیت پر بہترین دلیل ہے اسی طرح اکراہ سے متعلق احادیث بھی تقیہ پر دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں؛من جملہ اسکے مندرجہ ذیل نوشتہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
نقل ہواہے کہ پیغمبر اکرم(ص)کے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد مہاجرین میں سے بعض افراد مکہ مکرمہ سے اپنا مال و اموال لانے کیلئے آنحضرت سے مکہ جانے کی رخصت لیتے ہوئے مشرکین کو خوش کرنے کیلئے اپنے قلبی اعتقاد کے برخلاف بعض کلمات ادا کرنے کی اجازت دریافت کی تو آنحضرت (ص)نے انہیں ایسے کلمات کے ادا کرنے کی اجازت دے دی۔[ السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲] آپ(ص)کے صحابہ اور تابعین سے بھی مختلف موارد میں ایسے رفتار یا گفتار کا ثبوت ملتا ہےکہ جو تقیہ پر دلالت کرتی ہے۔ جیسے ابن عباس، [ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹] ابن مسعود، [ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶] جابر بن عبداللہ انصاری، [شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷] حذیفہ بن یمان، [صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050] ابوالدَرداء[ بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲] اور سعید بن مُسَیب وغیرہ کے طرز عمل میں۔[امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، ص۳۸۰]
صحابہ کی زندگی میں تقیہ کے نمونے:ابن مسعود اور حذیفہ بن یمانی عثمان بن عفان کے ہاں پہنچتے ہیں: عثمان نے حذیفہ سے مخاطب ہو کر پوچھا: یہ تمہارے بارےمیں مجھ تک پہنچنے والی خبریں کیا ہیں؟ حذیفہ نے جواب دیا میں نے انہیں نہیں کہا ہے۔عثمان نے کہا: تم ان کے درمیان نیکو کار ترین اور بہترین فرد ہو۔ابن مسعود کہتے ہیں جب خلوت ہوئی تو میں نے حذیفہ سے کہا: کیا تم نے یہ باتیں نہیں کہی تھی؟حذیفہ نے جواب دیا: کیوں نہیں میں نے کہا تھا لیکن میں نے دین کے کچھ حصے پر عمل کرنے کے ذریعے(خوف کی وجہ سے زبان پر لانے والے کلمات) اپنے دین کے بقیہ حصوں کو محفوظ کر لیا ۔[صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050]
منابع:حلبی، علی بن ابراہیم، السیرہ الحلبیہ، بیروت، ۱۳۲۰، چاپ افست، بیتا،عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری: شرح صحیح البخاری، بیروت: دارالمعرفہ، بیتا،الصنعانی، أبو بكر عبد الرزاق بن ہمام(211 ق)، المصنف، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمی، المكتب الإسلامی - بيروت، چاپ دوم، 1403 ق،امینی، عبد الحسین، الغدیرفی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، بیروت ۱۳۸۷/۱۹۶۷۔
Add new comment