چکیده:قرآن حکیم کی متعدد آیات میں فلسفہ معراج کی طرف اشارہ کیا ہے پہلی سورۃ بنی اسرائیل ہے اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ۔ یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجدِ الاقصیٰ تک کا سفر۔
قرآن اور فلسفہ معراج:
قرآن حکیم کی متعدد آیات میں فلسفہ معراج کی طرف اشارہ کیا ہے پہلی سورۃ بنی اسرائیل ہے اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ۔ یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجدِ الاقصیٰ تک کا سفر۔
اس سلسلے کی دوسری سورت۔ سورہ نجم ہے ۔ اس کی آیت ۱۳ تا ۱۸ میں معراج کا روسرا حصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے-:
وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً اٴُخْری عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَھَی عِنْدَھَا جَنَّةُ الْمَاٴْوَی إِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی لَقَدْ رَاٴَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ
ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ۔
رسول اللہ نے فرشتہ وحی جبریل کو اس کی اصل صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا (پہلے آپ اسے نزول وحی کے آغاز میں کوہِ حرا میں دیکھ چکے تھے) یہ ملاقات بہشت جاوداں کے پاس ہوئی ۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے رسول اللہ کسی اشتباہ کا شکار نہ تھے آپ نے عظمت الٰہی کی عظیم نشانیاں مشاہدہ کیں ۔
یہ آیات کہ جو اکثر مفسرین کے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہیں یہ بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا خصوصاً ”مازاغ البصر و ما طغیٰ“ اس امرکا شاہد ہے کہ رسول اللہ کی آنکھ کسی خطا، اشتباہ اور انحراف سے دوچار نہیں ہوئی اس واقعے کے سلسلے میں مشہور اسلامی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں ۔
علماء اسلام نے ان روایات کے تو اتر اور شہرت کی گواہی دی ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند روایات ذکر کرتے ہیں
۱۔ عظیم فقیہ و مفسر شیخ طوسی تفسیر تبیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں کہتے ہیں
شیعہ علما کا موٴقف ہے کہ جس رات اللہ اپنے رسول کو مکہ سے بیت المقدس لے گیا اسی رات اس نے آپ کو آسمانوں کی طرف بلند کیا اور آپ کو اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں اور یہ سب کچھ عالم بیداری میں تھا ،خواب میں نہ تھا ۔
۲۔ بلند مرتبہ مفسر مرحوم طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں سورہٴ نجم کی آیات کے ذیل میں کہتے ہیں ہماری روایات میں مشہور یہ ہے کہ اللہ اپنے رسول کو اسی جسم کے ساتھ عالم بیداری و حیات میں آسمانوں پر لے گیا اور اکثر مفسرین کا یہی عقیدہ ہے
فلسفہ معراج احادیث کی نظر میں:
احادیث کی کتابوں میں بھی پیغمبر اسلام (ص) کے معراج کے بعض مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، من جملہ
یونس بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے امام کاظم (ع) سے پوچھا: خداوند متعال کس وجہ سے اپنے پیغمبر (ص) کو آسمان پہ لے گے اور وہاں سے سدرة المنتہی کی طرف اور وہاں سے نور کے حجابوں کی طرف اور وہاں پر ان کے ساتھ گفتگو اور سرگوشیاں کیں، حتی کہ خداوند متعال کی مکان سے توصیف نہیں کی جاسکتی ہے اور اس کے لئے زمان معنی نہیں رکھتا ہے، لیکن خداوند متعال نے چاہا کہ اپنے فرشتوں اور آسمانوں کے ساکنوں کی، پیغمبر (ص) کو دکھا کر نوازش کرے اور اپنی تخلیق کے عجائبات اپنے پیغمر(ص) کو دکھائے تاکہ وہاں سے لوٹنے کے بعد لوگوں کو خبر دیدیں اور یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ فرقہ مشبّہہ کہتے ہیں۔[یعنی وہ خا کی طرف ظاہری جسم کی تشبیہ دیتے ہیں ] خداوند متعال ان چیزوں سے پاک و منزہ ہےجو اس کی توصیف میں کہا جاتا ہے"ثابت دینار کہتے ہیں: میں نے امام زین العابدین(ع) سے پوچھا:" کیا خداوند متعال کا ( معین و مخصوص) کوئی مکان ہے جہاں پر وہ رہتا ہے؟ امام نے جواب میں فرمایا: خداوند متعال اس سے پاک و منزہ ہے(کہ اس کے بارے میں کسی خاص مکان کا تصور کیا جائے"۔) میں نے پوچھا: پس خداوند متعال کیوں حضرت محمد (ص) کو آسمان پر لے گیا؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ( آنحضرت (ص) کو آسمان کی طرف لے جانے کی یہ دلیل نہیں ہے کہ خداوند متعال کا کوئی خاص مکان ہے بلکہ آنحضرت (ص) کو آسمان پر لےگیا تاکہ عالم ملکوت کا انھیں مشاہدہ کرائے۔ اور اپنی تخلیق کے عجائبات کو انھیں دکھائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
شیخ صدوق، علل الشرائع، ج 1،ص 132، کتابفروشی داوری، قم، طبع اول، 1385ش۔
بحار الانوار، ج ۶ طبع قدیم ص ۳۶۸-
Add new comment