خلاصہ: امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) نے ائمہ(علیہم السلام) کے علم کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا ہے: گذشتہ کا علم، آئندہ کا علم اور علم حادث۔ ان تین قسموں کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ(علیہم السلام) کو گذشتہ اور آئندہ کے ہر واقعہ کا علم ہوتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کوئی بھی امام(علیہ السلام) کے علم کے بارے گفتگو نہیں کرسکتا، کس طرح ممکن ہے کہ ایک عام شخص جو معصوم نہ ہو کسی معصوم کے علم کے بارے میں گفتگو کرے، اسی لئے ضروری ہے کہ کوئی معصوم ہی اپنے علم کے بارے میں بیان کریں، اسی مقصد کو مدّ نظر رکھتے ہوئے امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) نے امام کے علم کے بارے میں جو بیان فرمایا ہے اس کو بیان کیا جارہا ہے۔
علی ابن محمد سمری نے امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے ایک نامہ میں امام(علیہ السلام) کے علم کے بارے میں سوال کیا، امام(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) نے ان کے جواب میں یہ فرمایا: «عِلْمُنا عَلى ثَلاثَةِ أَوْجُه: ماض وَغابِر وَحادِث، أَمَّا الْماضي فَتَفْسيرٌ، وَأَمَّا الْغابِرُ فَمَوْقُوفٌ، وَأَمَّا الْحادِثُ فَقَذْفٌ فيِ الْقُلُوبِ، وَنَقْرٌ في الاْسْماعِ، وَهُوَ أَفْضَلُ عِلْمِنا، وَلا نَبيَّ بَعْدَ نَبِيِّنا[۱] ہمارے علم کی تین قسمیں ہیں: گذشتہ، آئندہ اور حادث۔ گذشتہ کا علم تفسیر ہے، آیندہ کا علم موقوف ہے، اور علم حادث دلوں میں ڈالا جاتا ہے اور کانوں میں زمزمہ کیا جاتا ہے»۔
اس حدیث کے مطابق امام(علیہ السلام) کے علم کی تین قسمیں ہیں۔
۱۔ گذشتہ کا علم: جو واقعات اور چیزیں گذشتہ میں رونما ہوئی ہیں اس کا علم، ممکن ہے کہ لوگوں کو اس علم کے بارے میں خلاصے کے طور پر اطلاعات ہوں، لیکن اس کے بارے میں تفصیل سے اطلاعات نہ ہوں، امام(علیہ السلام) کو ان کے بارے میں تفصیل سے علم ہوتا ہے، جس کے بارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح فرمارہاہے: «نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ[سورۂ یوسف، آیت:۳] پیغمبر ہم آپ کے سامنے ایک بہترین قصہ بیان کررہے ہیں جس کی وحی اس قرآن کے ذریعہ آپ کی طرف کی گئی ہے، اگرچہ اس سے پہلے آپ اس کی طرف سے بے خبر لوگوں میں تھے»،
اس آیت کے ذریعہ یہ معلوم ہورہا ہےکہ وہ اطلاعات جو کسی بھی کتاب میں مرقوم نہیں ہے اور کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور أئمہ(علیہم السلام) کو خداوند متعال، وحی کے ذریعہ ان کو متنقل کرتا ہے اور وہ لوگ اس علم کی لوگوں کے سامنے تفسیر کرتے ہیں۔
۲۔ آئندہ کا علم: امام(علیہ السلام) کا وہ علم جو آئندہ ہونے والے واقعات سے مربوط ہے۔ امام(علیہ السلام) کو جن باتوں کا علم ہوتا ہے وہ کسی بھی حالت میں رونما ہوتی ہے، جس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں:میں تمھارے شہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ پانی کے اندر چلے گئے ہیں اور اس میں سے سوائے ایک مسجد کے کچھ بھی نہیں دکھ رہا ہے وہ بھی اس طرح جس طرح ایک مرٖغ کا سینہ پانی پر دکھتا ہے[۲]۔ ابن ابی الحدید اس حدیث کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: بصرہ اب تک دو بار پانی میں غرق ہوچکا ہے؛ ایک بار "قادر باللہ " کے زمانے میں، اور دوسرے بار "قائم بامراللہ" کے زمانے میں۔جس طرح امام(علیہ السلام) نے فرمایا اسی طرح صرف مسجد جامع پانی کے اوپر دکھ رہی تھی[۳]۔
۳۔ علم حادث : یہ وہ علم ہے جو وحی اور الہامات کے ذریعہ امام(علیہ السلام) کے قلب پر جاری ہوتا ہے، اور یہ علم، امام(علیہ السلام) کا سب سے بہتر اور اچھا علم شمار کیا جاتا ہے۔
نتیجه:
امامت اور رہبری کرنے کے لئے امام(علیہ السلام) کے پاس علم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ چاہے وہ گذشتہ کا علم ہو یا آئندہ کا علم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] الكافي، محمد بن يعقوب کلینی، ج۱، ص۲۶۴، دار الكتب الإسلامية، تهران، ۱۴۰۷ ق.
[۲] نهج البلاغة، شريف الرضي، هجرت، قم، ۱۴۱۴ ق، ص۵۶.
[۳] شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج۱، ص۲۵۳، مكتبة آية الله المرعشي النجفي، قم، ۱۴۰۴ ق.
Add new comment