شفاعت
شیخ عباس قمی (رہ) نقل کرتے ہیں:
«ہم نے میرزا قمی رحمۃ الله علیہ کو خواب میں کو دیکھا اور ان سے پوچھا کہ «کیا حضرت معصومہ قم علیها السّلام، اهل قم کی شفاعت کریں گی؟»
رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے سلسلہ میں فرمایا: «یُحْشَرُ اَبُوطَالِبٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِی زِیِّ الْمُلُوکِ وَسِیمَاءِ الاْنْبِیَاءِ» ۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام قیامت دن کے بادشاہوں اورپیغمبروں کی صورت محشور ہوں گے ۔
حضرت معصومہ قم (س) کے مختلف القاب و فضائل میں سے ایک لقب اور ایک فضلیت "شفیعہ" ہے ، اس دن اور اس روز جس دن «لا تنفع الشفاعه عنده الا لمن اذن له» اس [خدا] کے نزدیک کسی کی شفاعت کام نہیں آئے کی مگر یہ کہ اسے اجازت حاصل ہو ۔ (۱)
شفاعت کا عقیدہ مسلمانوں کا مسلمہ عقیدہ ہے۔ علمائے اسلام اسے ضروریاتِ دین میں سے قرار دیتے ہیں۔ لہذا سب سے پہلے عقیدہ شفاعت کو سمجھنا ضروری ہے۔ قربان جاؤں پیغمبر (ص) کی ذات مقدس پر کہ بے انتہاء امت نے اذیتیں دیں، ایذا رسانی کی، لیکن کبھی بھی اپنی امت کیلئے بدعا نہیں کی بلکہ رحمۃ للعالمین اپنی امت
پیغمبر سے توسل اور دعا علماء اور بزرگان دین کا شیوہ اور انکی سیرت رہی ہے جبکہ وہابیت اسے بدعت گردانتی ہے جوکہ خود ایک بدعتی کلام ہے۔
دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا اچھی بات ہے، کسی کی سفارش کرنے سے اسکا کام بن جانے کا امکان ہو تو ضرور کرنا چاہیئے لیکن کبھی بھی ظالم کی حمایت میں کوئی قدم نہ اٹھے اسکا بھی خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام:
قرآن کریم، قیامت کے دن جس کی بھی شفاعت کرے گا، تو اس کی شفاعت قبول ہوجائے گی۔
(نهج البلاغه (صبحی صالح)، شریف الرضی، محمد بن حسین، ناشر: موسسط دار الهجره، محل نشر: قم-ایران، سال نشر: 1414، خ176.)