مغفرت اور درجات کی بلندی کیلئے شفاعت
کبھی شفاعت درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے، اس قسم کی شفاعت کو سب اسلامی مذاہب نے قبول کیا ہے، کبھی شفاعت گناہوں کی مغفرت کے لئے ہوتی ہے، اس قسم کی شفاعت کو بعض نے مثل معتزلی اور خوارج قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی جہنم میں داخل ہو جائے، کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اس دوزخ سے باہر آجائے ، (1) جو شخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے، وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے، وہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا۔(2)
شفاعت کرنے والوں کی شرائط
تین قسم کی خصوصیت رکھنے والے لوگ قرآن کی نظر میں شفاعت کرسکتے ہیں۔
۱: خدا پر ایمان ہو اور خلایق کے اعمال سے آگاہ ہو۔ "اور اللّٰہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ شفاعت کا کچھ اختیار نہیں رکھتے، سوائے ان کے جو علم رکھتے ہوئے حق کی گواہی دیں۔"(3)
۲: اذن خدا رکھتے ہوں۔ "اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی، سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے۔"(4)
۳: خدا کے نزدیک عہد و پیمان رکھتے ہوں۔ "وہ ہرگز مالک شفاعت نہیں ہیں، مگر وہ جو خدا کے نزدیک عہد و پیمان رکھتا ہو۔"(5) رسول خدا (ص) فرماتے ہیں: "اولین نفر میں ہوں، جو شفاعت کروں گا اور اولین میں ہوں، جس کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا۔"(6) پیغمبر اکرم (ص) کی شفاعت کو شفاعت کبریٰ کہا جاتا ہے، متعدد روایات میں ذکر ہوا ہے کہ نبیﷺ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ان لوگوں کو بھی شامل حال ہوگی، جو گناہ کبیرہ سے آلودہ ہونگے۔
بحارالانوار میں علامہ مجلسی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: "امام باقر علیہ السلام نے ابو ایمن کے جواب میں کہا جبکہ اس نے کہا اے ابا جعفر، آپ لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ہمیشہ کہتے ہیں کہ شفاعت محمد شفاعت محمد۔ امام اتنے ناراحت ہوئے درحالی کہ چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا اور فرمایا ویل ہو اور وائے ہو تم پر، اے ابا ایمن آپ کو آپ کے شکم کی عفت اور شہوت نے مغرور کر دیا ہے۔ اگر تم قیامت کا وحشتناک میدان دیکھتے تو حتماً آپ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی طرف محتاج ہو جائو گے۔ ویل ہو تم پر، آیا شفاعت مگر اس کے لئے ہے، جس پر جہنم واجب ہو؟ اس ٹائیم فرمایا کوئی بھی اول سے آخر تک نہیں ہے، جو قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا محتاج نہ ہو۔"(7)
خداوند عالم سورہ ضحیٰ میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے «وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَىٰ»(8) "حقیقتاً آپ کے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے۔"
خداوند متعال اس آیت کے ذریعے اپنے نبی مکرم (ص) کو فرما رہا ہے کہ اے میرے حبیب (ص) آپ کا بخت و دولت و اعتبار اور مقام اخروی اس جہان سے بہت برتر اور بالا ہوگا۔ اگر آج لوگ آپ کو طعنہ دے رہے ہیں اور مسخرہ کر رہے ہیں، آپ ثابت قدم رہیں اور ناملایمات سے نہ ڈرنا، کیونکہ تاریخ حق کی معرفی اور باطل کو رسوا کرتی ہے اور قیامت کے دن وہ لوگ اس رسوائی کو دیکھیں گے اور آپ کے پیروکار ان منکرین و دنیا طلبوں پر برتری اور نیکی کو دیکھیں گے اور یہ جان لو کہ قیامت کے دن آپ کا نام میرے نام کے ساتھ دنیا کی ہر جگہ گونجے گا، اس انداز میں آپ کا نام ہوگا۔ خداوند متعال آگے فرماتا ہے «وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ »(9) "عنقریب خدا آپ کو اتنا کچھ عطا کرے گا کہ آپ شاد ہو جائو گے۔"
یہ آیت پیغمبر اسلام (ص) کو بشارت دے رہی ہے کہ نبیﷺ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ایسی چیز اعطا کی جائے گی، جو رسول خدا کی رضا و خوشنودی کو جلب کرے۔ ائمہ اطہار علیہم السلام اس عطیہ کی ایک تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ چیز جو رسول خدا کی رضا کو تامین کرے گی، وہ اذن ہے، جو خداوند متعال نے امت مسلمہ کی شفاعت کے لئے رسول خدا کو عطا کیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک وقت رسول خدا نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور آنسوں جاری ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی زبان مبارک پر یہ کلمات «امتی امتی» لائے۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے رسول خدا کی اس امت کی عاقبت کی پریشانی کا مشاہدہ کیا یا یوں کہوں کہ جبرائیل امین نے نبی مکرم کی اپنی امت سے محبت کا مشاہدہ کیا تو خداوند متعال کی جانب سے رسول خدا کو اپنی امت کی شفاعت کی بشارت دی، کہ آپ کی رحمت اور شفاعت روز آخرت امت مسلمہ کو شامل حال ہوگی۔(10)
رسول خدا کی رحمت جو جہان آخرت میں استمرار ہے، جس کا نام شفاعت ہے۔ خود رسول اللہ (ص) کی حدیث مبارک ہے، جس پر شیعہ سنی متفق ہیں اور یہ حدیث صحیح السند ہے «ذخرت شفاعتی لاہل الکبائر من امتی» "میری شفاعت میری امت میں سے ان کے بھی شامل حال ہوگی، جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونگے۔" جب حضرت مآب (ص) کو بشارت ملی، جو جبرائیل امین لیکر آئے تھے تو نبیﷺ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "میرے لئے یہی خوشخبری کافی ہے اور یہ بشارت میری رضامندی و خوشنودی کو جلب کرے گی۔"(11) امت مسلمہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ روز محشر محمد مصطفیٰ رحمۃ للعالمین (ص) ضرور شفاعت کریں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو نبی کریم (ص) ہمیشہ اپنی امت کے لئے دعا کرتے رہے ہیں اور وہ قیامت کے دن شفاعت ناں کریں۔
جبکہ ہم انبیاء علیہم السلام کے قصے قرآن مجید میں پڑھتے رہتے ہیں کہ جب انکی امتوں نے ہٹ دھرمی کی اور دعوت حق کو قبول نہ کیا، حتی اپنے وقت کے انبیاء پر ظلم کیا، بالآخر ان چیزوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان قوموں پر انبیاء کی بدعا کی وجہ سے عذاب خدا نازل ہوا۔ لیکن میں قربان جاؤں ہمارے پاک پیغمبر (ص) کی ذات مقدس پر کہ بے انتہاء امت نے اذیتیں دیں، ایذا رسانی کی، لیکن کبھی بھی اپنی امت کے لئے بدعا نہیں کی بلکہ رحمۃ للعالمین اپنی امت کے لئے دعا کرتے نظر آتے تھے۔ [اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ] "یااللہ میری قوم کی ہدایت فرما کہ یہ نہیں جانتے۔"(12) خداوند متعال سے دعا ہے کہ بحق محمد و آل محمد (ص) ہمیں اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے اور محمد و آل محمد کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دیگر قسطیں یہاں پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6446
http://www.ur.btid.org/node/6450
تحریر: وقار علی مطہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و مآخذ:
1: زمخشری، ج1، ص152
2: سورہ نساء،85
3: سورہ زخرف،86
4: سورہ طہ،109
5: سورہ مریم،87
6: ترمذی، ج5، ص،587
7: بحارالانوار، ج8، ص38
8: سورہ ضحی،4
9: سورہ ضحی،5
10: الصحیح، ج1، ص132
11: روح جنان ، ابوالفتوح رازی، ج20، ص311
12: بحارالانوار، ج35، ص177
Add new comment