عیب
امیرالمؤمنین علیه السلام:
«لِيَكُنْ أَبْغَضُ اَلنَّاسِ إِلَيْكَ وَ أَبْعَدُهُمْ مِنْكَ أَطْلَبَهُمْ لِمَعَائِبِ اَلنَّاسِ»
تمہارے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض ترین اور دور رہنے والا وہ شخص ہونا چاہیے جو لوگوں کے عیبوں کو تلاش کرتا ہو
خلاصہ: اچھے معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کوے عیوب کی پردہ پوشی کریں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ﴿سورة الحجرات۱۲﴾
خلاصہ: جب انسان اپنے آپ کو گناہ کی گندگی سے پاک کرتا ہے، اسی وقت وہ خدا کی قربت کو حاصل کرسکتا ہے۔
خلاصہ: انسان کو چاہیے کہ پہلے اپنے عیب کو ختم کرے نہ یہ کہ لوگوں سے وہ عیب نکالے جو اس کے اپنے اندر پایا جاتا ہے۔
خلاصہ: خیرخواہی باعث بنتی ہے کہ انسان اپنے عیب کو تسلیم کرنے اور اس کو ختم کرنے میں آسانی محسوس کرے۔
خلاصہ: آدمی جب اپنا عیب سنے تو اسے چاہیے کہ اس کو تسلیم کرکے ختم کرنے کی کوشش کرے، نہ یہ کہ بیجا دفاع کرے۔
خلاصہ: جب انسان اپنا عیب کسی شخص سے سنے تو اسے خیرخواہی سمجھ کر تسلیم کرے۔
خلاصہ: دیکھنے کے دو ذریعے ہیں: سر کی آنکھیں اور دل کی آنکھیں، بعض چیزوں کو سر کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ دل کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔
خلاصہ: بعض افراد لوگوں کے عیب تلاش کرتے ہیں، یہ افراد اس کام کے ذریعے شیطان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، اور بعض افراد اپنے عیب تلاش کرتے ہیں، یہ افراد شیطان کے چنگل سے بھاگ جاتے ہیں۔