خلاصہ: انسان کو چاہیے کہ پہلے اپنے عیب کو ختم کرے نہ یہ کہ لوگوں سے وہ عیب نکالے جو اس کے اپنے اندر پایا جاتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أکْبَرُ العَيْبِ أَنْ تَعيبَ غَيْرَكَ بِما هُوَ فيكَ"، "سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ تم دوسروں کا وہ عیب نکالو جو تمہارے اندر ہے"۔ [غررالحکم، ص۲۰۳، ح۳۴۵]
اصلاح کرنا اچھا کام ہے، اور یہ اچھا کام اپنے سے شروع ہونا چاہیے، کیونکہ لوگوں کی اصلاح کرنا، جبکہ اپنی اصلاح نہ کی ہو تو عقل اس کی مذمت کرتی ہے۔ اس لیے کہ جو شخص لوگوں کی اصلاح کرنا چاہتا ہے اور ان کو نصیحت کرتا ہے اور ان کے عیب ان کو بتاتا ہے تاکہ وہ اپنے عیبوں کو ختم کریں تو وہ یہ سب کام کیوں کرتا ہے؟ جن دلائل کے تحت اور جن مقاصد سے وہ لوگوں کی اصلاح کرتا ہے انہی دلائل و مقاصد سے اسے اپنی بھی اصلاح کرنی چاہیے۔
حضرتؑ کے اس فرمان کے مطابق، یہ صرف معمولی سا عیب نہیں ہے، بلکہ سب سے بڑا عیب ہے کہ آدمی لوگوں سے وہ عیب نکالے جو اس کے اپنے اندر پایا جاتا ہے۔
مثلاً ایک شخص نماز دیر سے پڑھتا ہے، یہ عیب ہے۔ ایک اور شخص ہے جو خود دیر سے نماز پڑھتا ہے اور اُس آدمی سے بھی یہ عیب نکالتا ہے۔ یہ عیب دونوں افراد میں ہے، لیکن اس شخص میں زیادہ بڑا شمار ہوگا جو دوسرے شخص سے یہ عیب نکالتا ہے جبکہ اس کے اپنے اندر بھی یہ عیب پایا جاتا ہے۔
اس کو چاہیے کہ نماز کو فضیلت کے وقت پر پڑھا کرے، ورنہ دوسرے کا عیب نکالنا اور اپنے اسی عیب سے غافل رہنا لائق مذمت ہے۔
عیب نکالنے والے اس شخص میں دو عیب پائے جاتے ہیں: ایک تو وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جو دوسرے شخص میں بھی پایا جاتا ہے اور دوسرا عیب یہ ہے کہ وہ اپنے عیب کو نظرانداز کرکے دوسرے سے عیب نکال رہا ہے۔
* غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص۲۰۳، ح۳۴۵، ناشر: دار الكتاب الإسلامي، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
Add new comment