خلاصہ: خیرخواہی باعث بنتی ہے کہ انسان اپنے عیب کو تسلیم کرنے اور اس کو ختم کرنے میں آسانی محسوس کرے۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ بَصَّرَكَ عَيْبَكَ فَقَدْ نَصَحَكَ"، "جو شخص تمہارا عیب تمہیں دکھائے یقیناً اس نے تمہاری خیرخواہی کی ہے"۔ [غررالحکم، ص۵۷۹، ح۱۲۳]
اپنے عیبوں کو سننے پر بعض لوگوں کا برتاؤ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا عیب سن کر مختلف طریقوں سے اسے طاق نسیان پر رکھ دیتے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ نظرانداز کرنا: جب آدمی کو کوئی شخص اس کا عیب بتائے تو اسے چاہیے کہ اس کی بات کو اہمیت دے اور اس عیب کو ختم کرنا اہم سمجھے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کو ان کا عیب بتایا جائے تو وہ بتانے والے کی اس بات پر توجہ نہیں کرتےیا اسےمعمولی بات سمجھتے ہیں یا سن کر بھلا دیتے ہیں، حالانکہ اپنا عیب اتنا اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اسے انتہائی غور سے سننا چاہیے اور اس کو ختم کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے اور بتانے والے کی بات کو غنیمت سمجھنا چاہیے، لہذا عیب کو بھلانے سے وہ عیب ختم نہیں ہوسکتا، بلکہ ختم کرنے کے لئے اسے یاد رکھنا پڑے گا اور مختلف مناسب موقعوں پر اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ اسی لیے خیال رکھنا پڑے گا کہ اس عیب کا موقع کب پیش آتا ہے تا کہ بہترین طریقے سے اس کی روک تھام کی جاسکے۔
۲۔ آئندہ پر چھوڑ دینا: عیب بری چیز ہے چاہے آج ہو یا کل ہو۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو اس کا عیب بتایا جائے تو بات کو سن لے گا، اپنے عیب کو تسلیم بھی کرے گا اور عیب کو ختم کرنے کا ارادہ بھی کرلے گا، لیکن اس عیب کو ختم کرنے میں فوراً کوشش شروع نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ پر چھوڑ دے گا کہ بعد میں اس عیب کو ختم کرنے کی کوشش کروں گا، حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وقت کے گزرنے سے رفتہ رفتہ عیب کے برے ہونے کو بھول جائے گا، لہذا آدمی عیب کو ختم کرنے کے ارادے کو بھی فراموش کردے گا۔
عیب کو نظرانداز کرنا یا آئندہ پر چھوڑ دینا، عیب کو چھوٹا اور حقیر سمجھنے کی نشانی ہے، یعنی آدمی اپنے اس عیب کی برائی یا نقصان کو نہیں سمجھا اور ہوسکتا ہے کہ یہ خود نیا عیب شمار ہو۔ ان دونوں صورتوں میں اگر آدمی، عیب بتانے والے کو اپنا خیرخواہ سمجھ لے تو وہ وقت اس کی نصیحت سے متاثر ہونے کا سنہری موقع ہے۔
* غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص۵۷۹، ح۱۲۳، ناشر: دار الكتاب الإسلامي، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
Add new comment