خلاصہ: دیکھنے کے دو ذریعے ہیں: سر کی آنکھیں اور دل کی آنکھیں، بعض چیزوں کو سر کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ دل کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أبْصَرُ النّاسِ مَن أبْصَرَ عُيوبَهُ و أقْلَعَ عن ذُنوبِهِ"، "سب سے زیادہ دیکھنے والا شخص وہ ہے جو اپنے عیبوں کو دیکھے اور اپنے گناہوں سے جدا ہوجائے"۔ [غررالحکم و دررالکلم، ص۱۹۷، ح۲۳۵]
یقیناً سر کی آنکھیں، مسائل کو سمجھنے میں مددگار بن سکتی ہیں، یعنی انسان ان ظاہری آنکھوں سے واقعہ کو دیکھتا ہے اور پھر ان کا تجزیہ کرکے نتیجہ نکالتا ہے، لیکن دل کی آنکھیں اگر نابینا ہوں تو مثلاً جہاں حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنا ہو، خاص طور پر جب نفع یا نقصان کا تعلق خود آدمی سے ہو تو اس وقت معلوم ہوگا کہ وہ اپنے فائدہ اور نقصان کو دیکھ کر باطل کو باطل کہتا ہے اور حق کو حق کہتا ہے یا حق کو باطل اور باطل کو حق کہہ دیتا ہے۔
ایسے موقع پر اس کے سر کی آنکھیں دوسرے لوگوں کی طرح ہی دیکھ رہی ہوتی ہیں مگر فرق، سمجھنے اور معیاروں کے مطابق فیصلہ کرنے میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مختلف نظریات اور فیصلے پیش کیے جاتے ہیں اور صحیح کام کو غلط اور غلط کو صحیح سمجھ لیا جاتا ہے، خصوصاً غلطی کو غلطی نہیں سمجھا جاتا۔
جب انسان اپنا کوئی عیب کسی آدمی کی زبان سے سنتا ہے تو حق کے معیار کے مطابق اس کی بات پر غور کرے تا کہ دیکھ سکے یعنی سمجھ سکے کہ کیا اس کی بات صحیح ہے یا نہیں۔ اگر صحیح ہے تو اس عیب کو اپنے سے ختم کرنے کی کوشش کرے۔
اگر انسان اپنا عیب کسی آدمی کی زبان سے سن کر ضد کرجائے، مخالفت دکھائے اور عیب کو عیب نہ مانے یا اپنے عیب کو خود دیکھ کر نظرانداز کردے یا دیکھ کر سمجھ لے کہ یہ عیب اور گناہ ہے، مگر اسے ختم نہ کرے تو وہ بصیرت رکھنے والا شخص نہیں ہے۔ اب اس آدمی کے سر کی آنکھیں جتنی بھی طاقتور ہوں، لیکن حقیقی بینائی اور بصیرت کا معیار یہ ہے کہ آدمی اپنے عیبوں کو دیکھے اور اپنے گناہوں سے الگ ہوجائے۔
* غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص۱۹۷، ح۲۳۵، ناشر: دار الكتاب الإسلامي، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
Add new comment