توبہ
«وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ» ﴿۳۰﴾
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اَبَى اللّه لِصاحِبِ الْخُلْقِ السَّيِّى ءِ بِالتَّوبَةِ. فَقيلَ: يا رَسول اللّه ، وَ كَيْفَ ذلِكَ ؟ قالَ: لاِنـَّهُ اِذا تابَ مِنْ ذَنـْبٍ وَقَعَ فى اَعْظَمَ مِنَ الذَّنـْبِ الّذى تابَ مِنْهُ ۔ (۱)
خلاصہ: اس مضمون میں حضرت آدم اور حضرت حوّا (علیہما السلام) کی دعا بیان کرتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے درس آموز نکات کی وضاحت کی جارہی ہے۔
جب انسان توبہ کر لیتا ہے تو وہ ایسے پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے اس نے پہلے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو.
خلاصہ:توبہ نہ کرنے والا بدنصیب بندہ قیامت کے دن کہیگا پروردگارا! میں ناداں اور بے خبر تھا اپنی شہوت اور غضب، خواہشات نفسانی کا اسیر تھا اور میں شیطان کے وسوسوں کے سامنے بے بس تھا۔
خلاصہ: بعض واجبات کو فوراً بجالانا ہوتا ہے، ان میں سے ایک، توبہ ہے۔
خلاصہ: صرف زبان سے "استففر اللہ" کہنے کا نام توبہ نہیں ہے بلکہ حقیقی معنی میں اپنے گناہ سے معافی مانگنے کا نام توبہ ہے۔
خلاصہ: جب بندہ، خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہے تو یقینا خداوند متعال اس بندہ پراپنے لطف اور کرم سے اسکے گناہ کو معاف کردیتا ہے۔
خلاصہ: اگر کوئی بندہ استغفار کریگا تو خداوند عالم اسکی تمام پریشانیوں کو دور کردیگا، جب انسان اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوجاتاہے تو ہر لمحہ خدا کی یاد میں رہتا ہے۔
خلاصہ: تقوی انسان کو ہمیشہ توبہ کرنے پر ابھارتا رہتا ہے اور گناہ انسان کو توبہ کرنے سے غافل رکھتا ہے۔