خلاصہ: اس مضمون میں حضرت آدم اور حضرت حوّا (علیہما السلام) کی دعا بیان کرتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے درس آموز نکات کی وضاحت کی جارہی ہے۔
قرآن کریم میں کئی انبیاء (علیہم السلام) کی دعائیں بیان ہوئی ہیں، ان میں سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔حضرت آدم (علیہ السلام) نے گناہ نہیں کیا تھا، بلکہ آنحضرتؑ سے ترکِ اَولیٰ ہوا، یعنی بہتر یہ تھا کہ اُس درخت سے نہ کھاتے، مگر اس ترک اولی کے بعد حضرت آدم اور حضرت حوّا (علیہماالسلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی: "قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ"، (۱) "اس وقت ان دونوں نے کہا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اور اگر تو درگزر نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوں گے"۔
حضرت آدم اور حضرت حوّا (علیہماالسلام) نے اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دو باتیں عرض کیں:
۱۔ ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔
۲۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کا محتاج اور ضروتمند سمجھا اور مغفرت اور رحمت سے محروم ہونے کی صورت میں اپنے آپ کو گھاٹا اٹھانے والوں میں سے سمجھا۔
اس دعا سے چند درس آموز نکات حاصل ہوتے ہیں جن کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی میں دعا کے اس طریقے کو اپنائیں:
۱۔ جب انسان سےخطا، غلطی اور گناہ ہوجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی غلطی اور گناہ کا اقرار کرتے ہوئے توبہ اور استغفار کرے۔
اگر آدمی اپنی غلطی ہی تسلیم نہ کرے بلکہ مختلف طریقوں اور بہانوں سے اپنی غلطی کو صحیح کام دکھانا چاہے تو یقیناً ایسا آدمی توبہ اور استغفار نہیں کرے گا، کیونکہ وہ جب اپنی غلطی کو غلطی ہی نہیں مان رہا تو توبہ کس کام سے کرے؟! انسان اس بات پر بھی توجہ کرے کہ اگر اپنی غلطی کو غلطی تسلیم نہیں کرے گا تو اگرچہ پہلی بار اسے خود یقین تھا کہ یہ میری غلطی ہے، لیکن اگر غلطی کو دہراتا رہے اور اپنے دل میں یا لوگوں کے سامنے اپنے غلط کام کو صحیح ظاہر کرتا رہے تو رفتہ رفتہ اسے خود بھی یقین ہوتا جائے گا کہ لگتا ہے کہ میرا یہ کام صحیح ہے، حالانکہ اس کی یہ غلط فہمی توبہ اور استغفار نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
۲۔جب انسان گناہ کربیٹھتا ہے تو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کا محتاج سمجھے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے نہ بخشے اور مجھ پر رحم نہ کرے تو میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوں گا۔ جب آدمی ایسا سمجھے گا تو نہ اس گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرے گا اور نہ اس گناہ پر خوش ہوگا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ندامت اور پشیمانی کے ساتھ گڑگڑائے گا توبہ اور استغفار کرے گا۔
* (۱) سورہ اعراف، آیت ۲۳۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment