گذشتہ سے پیوستہ
یہ قانون ، آئین یا معاہدہ (خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کا کنونشن) بہت سارے دینی و مذھبی مسائل کے برخلاف اور اس کے مقابل ہے ، بہت ہی سادہ لوح ہوں گے وہ لوگ جو یہ سمجھیں کہ یہ قانون خواتین اور صنف نسواں کی حمایت میں ہے اور انہیں امتیازی سے سلوک نجات دے سکتا ہے ۔ (۱)
ایت اللہ مکارم شیرازی اپنے بیان میں فرماتے ہیں کہ درج ذیل دو تمہیدوں سے اس طرح کے معاہدے کی غیر منطقی حیثیت کو ثابت کیا جا سکتا ہے:
پہلی تمہید: خداوند متعال نے مرد و زن کی خلقت میں فرق رکھا اور یہ فرق ان کی کارکردگی میں اثر انداز ہے ، ہر مرد و زن دونوں ہی مقدس و محترم ہیں مگر دونوں کی کارکردگی مختلف اور الگ ہے ، یہ چیز ناقابل انکار ہے کیوں کہ معمولا سخت اور سنگین امور مرد کے ذمہ ہیں اور اسان و معمولی کام عورتوں کے حوالے ، میدان جنگ ، فوج اور سیکورٹی کے مختلف مراتب ، سخت سیاسی اور سماجی امور جیسے پائلٹ ، بسوں اور ٹرینوں کی ڈرائوینگ ، عمارتوں کی تعمیر اور مزدوری وغیرہ میں مرد و عورت برابر نہیں ہیں ، لہذا ہمیں قبول کرنا چاہئے کہ مرد و زن کا دائرہ کار الگ الگ ہے ۔
دوسری تمہید : کارکردگی اور تخلیقی صلاحیتوں میں فرق کے باوجود کیا ہم قانون بنا کر اس فطری چیزوں میں نمایاں تبدیلی لاسکتے ہیں ؟ کیا بیرونی حقائق سے چشم پوشی کرسکتے ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کیا تشریع (قانونی سازی) تکوین (فطرت) کو بدل سکتی ہے ؟ ہم یعنی اسلام معتقد ہے کہ اسلامی قانونی ہمیشہ تکوینات کا مکمل ہے اور دونوں ہی خدا کا عمل ہے ۔
ان دونوں باتوں اور تمہیدوں کو ملانے اور یکجا کرنے پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ہم خود اور دوسروں کو دھوکہ نہ دینا چاہیں تو لازم ہے کہ فطرت اور قانون یعنی شریعت اور تکوین کے درمیان ہم آہنگی وجود میں لائیں تاکہ قوانین حقیقت کے مطابق ہوں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
تبصرے
اسلام ذندہ باد
Add new comment