حرابن ریاحی نے کوفہ سے نکلتے وقت جس بشارت کو سنا تھا کہ « اے حر ! تجھے بہشت مبارک ہو» انہوں نے عاشور کی صبح امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر امام علیہ السلام کو ماجرا سنایا اور اپ سے بشارت کا تذکرہ کیا تو امام علیہ السلام نے ان سے کہا : « یقینا تمہیں تمھارے عمل کی جزاء ملی ہے » ۔
ابومخنف اپنی کتاب " مقتل ابومخنف" میں اسدی مرد کی زبان سے حضرت امام حسین علیہ السلام اور حر ابن ریاحی کی ملاقات کے حالات تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : جس وقت امام حسین علیہ السلام کا قافلہ منزل "شراف" سے روانہ ہوا تو صبح کے وقت تیزی سے اگے بڑھا اور جب درمیانی وقت آ پہنچا تو ناگہاں کسی نے تکبیر " اللہ اکبر" کی صدا بلند کی ، امام حسین علیہ السلام نے بھی تکبیر سے جواب دیا اور پھر اس مرد کو خطاب کرکے کہا " تکبیر کہنے کی وجہ کیا ہے" اس مرد نے کہا کہ مجھے خرمے کے درخت نظر ارہے ہیں ۔
اسدی دو مردوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی اس علاقے میں کھجور کا حتی ایک درخت بھی نہیں دیکھا ، امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا : تو پھر تم لوگوں کی نگاہ میں وہ دکھنے والی چیز کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ دشمن کا لشکر ہے ، تو امام حسین علیہ السلام نے بھی فرمایا " خدا کی قسم میری بھی یہی نظر ہے ، پھر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : کیا اس علاقہ میں کوئی پناہ گاہ جہاں پناہ لے سکیں ؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ جی ہاں یہیں قریب میں «ذوحُسَم» نامی ایک مقام ہے تو امام علیہ السلام نے قافلہ کو اس سمت لے جانے کا حکم دیا ، دشمن نے بھی اس سمت بڑھنا شروع کردیا مگر امام علیہ السلام اور اپ کے اصحاب ان سے پہلے «ذوحُسَم» پہنچ گئے ، امام علیہ السلام نے اس مقام پر خیمہ لگانے کا حکم دیا ۔
حر اور ان کا لشکر ظھر کے وقت اس مقام پر پہنچا تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ حر کے لشکر اور ان کی سواریوں کو سیراب کرو ، انہوں نے بھی امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حر ان کے لشکر اور حیوانوں کو سیراب کیا ۔
نماز ظھر کا وقت ہوگیا تو امام علیہ السلام نے اپنے موذن «حجّاج بن مسروق جعفی» سے کہا کہ اذان دو ، انہوں نے اذان دیا اور پھر امام حسین علیہ السلام اپنے دوش پر عبا ڈالے ہوئے خیمہ سے باہر نکلے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : « اے لوگو! خداوند متعال کا وظیفہ تمھارے دوش پر ہے ، میں تمھاری سمت نہیں ایا مگر یہ کہ تم نے ہمیں خط لکھا تھا ، تمھارے ایلچی میرے پاس ائے تھے اور مجھے انے کی دعوت کی ، مجھ سے کہا کہ میرا کوئی امام نہیں ہے ، خدا میرے ذریعہ تمھاری ہدایت کرے ، لہذا اگر تم اپنے عھد و پیمان پر قائم ہو تو تمھارے پاس آوں اور اگر میرے انے سے پریشان ہو تو واپس لوٹ جاوں » ۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: آيت الله حائري خراسانی ، ترجمہ سيد ابوفاضل رضوي اردكانی ، سيمای آزاده شهيد حر بن يزيد رياحی ، مطبوعہ انتشارات اسلامي قم ، ص 66 ۔
Add new comment