امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «الْزِمُوا مَوَدَّتَنا أَهْلَ الْبَیتِ فَانَّهُ مَنْ لَقَی اللَّهَ وَ هُوَ یوَدُّنا أَهْلَ الْبَیتِ دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفاعَتِنا». (۱)
ہم اہلبیت [علیھم السلام] کی محبت اپنے اوپر واجب اور لازم قرار دو کیوں کہ جو بھی میری محبت کے ساتھ خدا کا دیدار کرے گا وہ میری شفاعت کے وسیلہ بہشت میں داخل ہوگا ۔
مختصر تشریح:
انسان ایک سماجی اور اجتماعی موجود ہے کہ جو دوسروں کی بہ نسبت لاتعلق اور دیگر انسانوں سے دور نہیں رہ سکتا ، اسی بنیاد پر دوسروں سے محبت اور دوستی پسند کرتا ہے اور اسی عشق و محبت کے وسیلہ اپنے مختلف اھداف و مقاصد کی تکمیل کرتا ہے ۔
بعضی دوستیاں انسان کی رفتار و گفتار ، اس کے ادات و اطوار میں تبدیلی اور بہتری آنے نیز خوش اخلاقی اور زندگی میں کامیابی و کامرانی کا باعث بنتی ہے ، یعنی اچھا دوست انسان کو مشکلات سے نجات دلاتا ہے اور اسے کامیاب و کامران بنا دیتا ہے ۔
مگر ان تمام دوستیوں میں سے سب سے بہتر اور بالاتر دوستی معصوم رھبروں کی دوستی ہے جو ہمیشہ انسانوں کے خیر خواہ اور ان کے حق میں مفید ہیں ۔
اسی لئے امام حسین علیہ السلام دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں کہ «مَا ذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الَّذِي فَقَدَ مَنْ وَجَدَك... ؛ خدایا جس نے تجھے پا لیا اس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا » (۲)
آنحضرت اسی دعا میں مزید فرماتے ہیں کہ «يَا مَنْ أَذَاقَ أَحِبَّاءَهُ حَلَاوَةَ الْمُؤَانَسَة ، اے وہ ذات جس نے اپنی محبت اور اپنے انس کی مٹھاس و حلاوت مجھے خود چکھائی» (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: نوری ، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، ج۱، ص۱۵۱ ۔
۲: مجلسی ، محمد باقر، بحارالأنوار، ج ۹۵، ص ۲۲۶ ۔
۳: مجلسی ، محمد باقر، بحارالأنوار، ج ۹۵، ص ۲۲۶ ۔
Add new comment