تاریخ میں ۴ ستمبر عالمی یوم حجاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، خواتین کیلئے " پردہ" فقط ایک لباس کا نام نہیں ہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام حیات اور تھذیب کا نام ہے ، تاریخ میں میں عرب خواتین کے سلسلہ میں ایک جملہ نقل ہے کہ " النساء عماد البلاد" خواتین تہذیب و ثقافت کی عمارت اور ستون ہیں" اس میں کسی قسم کے شک و شبھہ کے گنجائش نہیں کہ مایوسیوں میں خواتین ہی امید کے چراغ جلاتی ہیں ، اپنے خون جگر کی حرات سے ایک بے جان لوتھڑے کو با عقل و شعور، قابل فہم و ادراک انسان بنا دیتی ہیں ، عورت کا حَسِین کردار خاندان اور قوم کی سربلندی اور اس کی اغوش حوصلہ بھری نسلیں تیار کردیتی ہے ۔
عورت طوفانی تھپیڑوں میں جلنے والا وہ چراغ ہے جس کی صدائیں زندگی کا پیغام بن کر تاریک راہوں کو منور کردیتی ہے ، اگر یہی با حیا اور با کردار عورت اپنے خالق اور پیدا کرنے یعنی سچے پالنے والے کی بات مان کر خود کو نامحرموں سے ڈھانپ لے تو پھر اس کے وجود سے وہ کردار جلوہ گری کرے گا جس کے لئے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا : « إِنَّ خَيْرَ نِسَائِكُمُ الْوَلُودُ الْوَدُودُ الْعَفِيف ؛ تمھاری عورتوں میں سب سے بہتر وہ عورتیں ہیں جو پاکدامن اور با پردہ ہیں »
مگر کچھ نفس پرست ، حیوان صفت اور بگڑے ہوئے لوگوں نے پردہ کو سیاسی رنگ دے کر اسے مسلم خواتین کی ذہنی پس ماندگی اور جہالت کی نشانی اور علامت قرار دیا کہ با پردہ اور محجہ خواتین کے پاس نہ زمانے کا شعور ہے، نہ ہی جدید تقاضوں کا علم ، نہ تعلیم اور نہ ہی سماجی مرتبہ، تو پھر اگر وہ پردہ نہ کرے تو کیا کرے ۔ دوسری جانب مسلمان مردوں کے جبر کی علامت بھی بنا کر پیش کیا گیا کہ وہ بڑے تنگ نظر اور دقیانوسی سوچ کے حامل ہیں، انہیں عورت کو قید کر کے لطف آتا ہے۔
لیکن آج !!
یہی حجاب کا ٹکڑا آزادی، اختیار اورمسلمان خواتین کے اعتماد سے بھرپور مسلم شناخت کا احساس بن کر ابھر رہا ہے ، پسماندگی سے عزت و افتخار تک کا یہ ارتقائی سفر بڑا حیرت انگیز ہے ، اب جب کہ مسلم عورت ان تمام قید و بند سے نکل کر زمانے کے ساتھ چلنے لگی ہے، حجاب پہن کر عالمی کھیلوں کے مقابلہ میں چمپئن بننے لگی ، سیاسی میدان کی لیڈری شپ سے لیکر پائلٹ کی شکل میں فضا کا سفر کرنے لگی ، روز و شب کی کوشش سے اعلیٰ درجہ کی تاجر بن گئی ، تو اس با پردہ کے خلاف سیاسی محاذ آرائیاں شروع ہوگئی ۔
کیوں ؟ ؟
اس لئے کہ پردہ نے مغربی دنیا کی غیر مسلم خواتین کو اپنی طرف راغب کرنا شروع کردیا ، وہ اسے اپنے لئے اسباب عزت و وقار محسوس کرنے لگیں ، ان میں سے کچھ نے اسلام قبول کرلیا تو کچھ اپنے باپ دادا کے دین پر رہ کر بھی با حجاب رہنا پسند کرنے لگیں ۔
برطانوی صحافی ایوان ریڈلی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ عورت کا حجاب اعلان کرتا ہے کہ میرے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا جائے !! عورتوں کے اختیار اور آزادی کا پیمانہ کیا ہے ، ان کی اسکرٹ کی چھوٹائی یا یہ کہ جسم کو کس حد تک نمائش کے لئے عریاں کیا جائے ؟ یا کبھی عورتوں کو ان کے کردار، علم اور ذہانت کی بنا پر بھی پرکھا جائے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کلینی ، اصول کافی، ج 5، ص 324 ۔
Add new comment