گھرانہ اسلام کی نگاہ میں

Sat, 05/28/2022 - 07:34
گھرانہ اسلام  کی نگاہ میں

گھرانہ کی تعریف

گھرانہ اپنے محدود معنوں اور معمولی تعریف میں ایک سماجی یونیٹ اور اکائی کو کہتے ہیں کہ جو ایک مرد و عورت کی شادی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے سے مکمل ہوتا ہے ، گھرانہ کی ایک اور تعریف یہ ہے کہ گھرانہ ایک ایسا مجموعہ ہے جہاں افراد اپنے مشترکہ اھداف کیلئے ایک چھت کے نیچے اکٹھا ہوتے ہیں ، یہ تعریف اور معنی پہلی تعریف سے ذرا عام اور وسیع تر ہے ۔

دین اسلام نے گھرانہ کو شہری، قانونی اور روحانی شخصیت کے مالک افراد پر مشتمل گروہ شمار کیا ہے کہ اس کا پہلا قدم اور پہلا زینہ مرد و عورت کی شادی اور ان کا اپسی نکاح ہے کہ جس کی بنیادوں پر مرد و عورت کے درمیان ازدواجی زندگی کا رابطہ اور بندھن قائم ہوتا ہے اور اس کے بعد دونوں کے ذمہ کچھ نئے وظائف اور ذمہ داریاں آجاتی ہیں نیز اسی نکاح کے ذریعہ لڑکے اور لڑی والوں کے درمیان رشتہ داری قائم ہوتی ہے نیز تمام فیملی ممبرس کے بیچ قانونی ، اخلاقی اور روحانی رشتہ برقرار ہوتا ہے ۔

گھرانہ معمولا لڑکے اور لڑکی کے خاندان ، بچے ، رشتہ دار جیسے چچا ، پھوپھی ، مامو، خالہ ، نواے سواسیاں ، پوتے پوتیاں اور ان کے بچے وغیرہ کو شامل ہے جبکہ بعض ممالک جیسے تیونس میں ان پڑوسیوں کو جو ایک ساتھ ایک خیمے یا ایک مکان میں زندگی بسر کرتے ہیں انہیں بھی گھرانہ کا حصہ شمار کیا جاتا ہے ، البتہ یہ بات تعجب آور نہیں ہے کیوں قبائل ایک نگاہ سے گھرانے کے مانند ہیں اور حتی بعض قبائل اس قدر قریبی رشتہ و ناطہ سمجھتے ہیں کہ قبیلہ میں شادی اور  رشتہ کرنا بھی حرام جانتے ہیں ۔

شادی اور رشتہ ازدواج دو اجنبیوں کے درمیان رشتہ الفت و محبت کا قیام ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے غمخوار، یاور و مددگار اور محرمِ راز و اسرار رہیں، ایک دوسرے پر پڑنے والی مصیبتوں میں ایک دیگر کی مدد اور حمایت کریں اور ایک دوسرے کی مدد سے خود اور سماج کی ترقی کا سبب بنیں ۔

اس بنیاد پر یہ بات واضح و روشن ہے کہ خاندان کے افراد کے ایک دوسرے سے تعلقات ، دوستی ، اخلاص ، ایثار و فداکاری ، بخشش اور گذشت پر ہونی چاہئے ،  طرفین یعنی میاں اور بیوی انسانی اعلی صفات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کا راستہ اپنائیں اور بعض اوقات اپنے اھل کو یعنی بیوی شوھر کو اور شوھر بیوی کو اپنی ذات پر مقدم کرے ۔

گھرانے اور خاندان میں باہمی اور ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر توجہ کی گئی ہے کہ یہ باہمی زندگی بسر کرنا کبھی میاں اور بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا تو کبھی بچوں اور والدین کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا تو کبھی بھائی اور بہنوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے ، ان تینوں مراحل کے کچھ دینی ، مذھبی اور سماجی قوانین و اصول ہیں جن کی رعایت اہل خاندان پر لازم و ضروری ہے تاکہ گھرانہ گلستان بن سکے ۔

بظاھر میاں اور بیوی کے تعلقات نفسانی خواہشات پر استوار لگتے ہیں مگر جب ہم اسے دقت کے ساتھ دیکھیں اور مستقبل پر نظر دوڑائیں نیز بزرگوں کی زندگی کو نگاہ میں رکھیں اور اس سے تجربہ حاصل کریں تو یہ بات بخوبی واضح و روشن ہوجائے گی کہ اس رشتہ کی بنیادیں نفسانی خواہشات پر نہیں بلکہ محبتوں پر رکھی گئی ہیں کیوں کہ عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشات دم توڑ دیتے ہیں مگر ازدواجی رشتہ میں استحکام موجود ہوتا ہے اور یہی جزبہ بچوں کے حق میں بھی پایا جاتا ہے کہ ماں اور باپ بغیر کسی امید اور توقع کے بچوں کی ترقی اور نجات کے لئے اپنا سب کچھ فدا کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 57