شادی و بیاہ
حضرت ادم علیہ السلام اور جناب حوا علیہا السلام کے زمین پر قیام کے بعد خداوند متعال نے ان کی نسل بڑھانے اور انہیں پوری زمین میں پھیلانے کا ارادہ کیا مگر اس سلسلہ میں کہ ان کی نسل کیسے زیادہ ہوئی اور ان کے بچوں کی شادیاں کس طرح انجام پائیں ، اختلافات موجود ہیں ۔
علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں تحریر فرماتے ہیں کہ «خبیثات» و «خبیثین» سے مراد فاسد اور الودہ عورتیں ہیں جو «طیّبات» اور «طیّبون» کے مقابل ہیں اور «طیّبات» و «طیّبون» میں پاک طینت مرد و عورتوں کا تذکرہ ہے ۔ (۱)
شادی زندگی کا وہ اہم مسئلہ اور حصہ ہے جس سے انسان گریز نہیں کرسکتا ، قران کریم نے سورہ نور کی ۳۲ ویں ایت شریفہ میں اسی بات کی تاکید کی ہے " وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَا
شادی اور ازدواجی زندگی کی تشکیل میں دیگر دست و پا گیر مسائل و مشکلات کی طرح ایک مسئلہ کفو کا ہے ، اور حقیقت امر یہ ہے کہ اکثر عوامی طبقہ کفو کے صحیح مفھوم و معنی سے ناواقف اور لا علم ہے ، لوگ بہت ساری چیزوں کو اپنی شان وشوکت کی خصوصیت اور اپنا حق سمجھتے ہیں ، جن کی حیثیت تکلفات سے زیادہ نہیں ہے ،
رہبانیت (دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کردینا) کی اسلام میں شدید مذمت و مخالفت کی گئی ہے اور اس کے برخلاف اسلام نے شادی بیاہ کی بہت زیادہ تاکید کی ہے نیز مسلمانوں کو رہبانیت سے دور رہنے کی نصیحت فرمائی ہے ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) نے ایک حدیث میں فرمایا :