ہم نے گذشتہ قسط میں دعائے ابوحمزہ ثمالی کے اس فقرے "وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تَحَبَّبَ إِلَيَّ وَ هُوَ غَنِيٌّ عَنِّي ؛ حمد ہے اس ﷲ کی جو مجھ سے محبت کرتا ہے اگرچہ وہ مجھ سے بے نیاز ہے" میں موجود نکات کی جانب اشارہ کیا تھا ، مفسر عصر حضرت ایت اللہ جوادی املی اس فقرے کی تفسیر اور تشریح میں فرماتے ہیں:
خداوند متعال نے ہماری لغزشوں اور خطاوں سے چشم پوشی کی اور ہمارے ساتھ محبت آمیز رویہ جاری رکھا اور ہم سب کے حق میں شفیق و مھربان رہا کہ جیسے ہم نے کوئی گناہ ہی انجام نہ دیا ہو اور ہمارا دامن گناہوں کی الودگی سے پاک و صاف ہو ، اسی بنیاد پر امام علیہ السلام بعد کے فقرے میں فرماتے ہیں "والْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي يَحْلُمُ عَنِّي حَتَّى كَأَنِّي لاَ ذَنْبَ لِي فَرَبِّي أَحْمَدُ شَيْءٍ عِنْدِي ؛ حمد ہے اس ﷲ کی جو مجھ سے اتنی نرمی کرتا ہے جیسے میں نے کوئی گناہ نہ کیا ہو پس میرا رب میرے نزدیک ہر شئی سے زیادہ قابل تعریف ہے " ۔
"وَهُوَ یَحلُم" چونکہ اللہ رب العزت اپنی تمام عظمت و بلندی اور بے نیازی کے ساتھ ہم سے والہانہ محبت کرتا ہے اور صبر و حلم و تحمل کیساتھ ہماری گناہوں سے درگذر فرماتا ہے کہ گویا ہم نے اس کی کوئی نافرمانی ہی نہ کی ہو اور ہم سے کوئی گناہ صادر نہ ہوا ہو ، نہ کبھی ہماری نعمتیں روکیں اور نہ ہی کبھی رحمتوں کا سایہ ہمارے اوپر سے ہٹایا ، تو ایسا وجود تمام حمد و ثنا کا مستحق ہے اور یقینا بہترین حمد و ثنا اس کے لئے ہی ہے ۔
جبکہ مخلوقات خصوصا انسان نہ ہم سے بے نیاز ہے اور نہ ہی کما حقہ مجھ سے محبت کرسکتا ہے اور نہ ہی ہماری خطاوں اور لغزشوں سے درگذر و چشم پوشی کرپاتا ہے ، لہذا ہماری حمد و ثنا کا مسحق بھی نہیں ہے ۔
ان باتوں اور دلیلوں کا ایک روشن پیغام ہے کہ خدا کی حمد و ثنا افعل التعیینی ہے نہ افعل التفضیلی، یعنی حمد و ثنا کی مستحق فقط و فقط خدا کی ذات ہے نہ یہ دوسرے بھی حمد و ثنا کے مستحق ہیں مگر خدا کی ذات کو افضیلیت اور اولولیت حاصل ہے ، دعا ہے کہ خداوند متعال ہم سب کی حمد و ثنا کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام اس دعا کے بعد کے فقروں فرماتے ہیں "اللَّهُمَّ إِنِّي أَجِدُ سُبُلَ الْمَطَالِبِ إِلَيْكَ مُشْرَعَةً، وَ مَنَاهِلَ الرَّجَاءِ إِلَيْكَ [لَدَيْكَ] مُتْرَعَةً، وَ الاسْتِعَانَةَ بِفَضْلِكَ لِمَنْ أَمَّلَكَ مُبَاحَةً، وَ أَبْوَابَ الدُّعَاءِ إِلَيْكَ لِلصَّارِخِينَ مَفْتُوحَةً ۔۔۔
اے معبود ! میں اپنے مقاصد کی راہیں تیری طرف کھلی ہوئی پاتا ہوں اور امیدوں کے چشمے تیرے ہاں بھرے پڑے ہیں ہر امید وار کے لئے تیرے فضل سے مدد چاہنا آزاد و روا ہے اور فریاد کرنے والوں کی دعائوں کیلئے تیرے دروازے کھلے ہیں ۔
دعا و استغفار کی قبولیت کے شرائط ہیں کہ جسے حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اس دعا کے ضمن میں بیان فرمایا ہے ۔
پہلی شرط یہ ہے کہ بندوں کے لئے ہمیشہ راستہ کھلا ہوا ہے کبھی بھی راستہ بند نہیں اور نہ فقط ایک یا دو افراد کیلئے بلکہ لاکھوں اور کروڑوں افراد کیلئے خدا کی بندگی، دعا اور استغفار کے راستے کھلے ہیں نیز راستے بھی بے انتہا اور لامحدود ہیں تا کہ کوئی اس راہ میں تنگی و مشکلات کا احساس نہ کرے ۔
دوسری شرط یہ ہے کہ بندہ ، خدا سے جس چیز کی درخواست اور مطالبہ کررہا ہے اس کی اجابت اور اس کا قبول ہونا ممکن ہو ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والوں کے اندر بھی شرائط پائے جاتے ہوں یعنی دعا میں وحدانیت اور توحید کا لحاظ کیا گیا ہو اور غیر خدا پر تکیہ و بھروسہ نہ کیا گیا ہو ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ خود خدا نے انسان کو اپنی سمت بلا ہو جیسا کہ اس دعا کے ابتدائی جملوں میں اس جانب اشارہ ہوچکا ہے ۔ "وَأَنْتَ دَلَلْتَنِي عَلَيْكَ، وَ دَعَوْتَنِي إِلَيْكَ" ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
Add new comment